سرینگر: ریاست مہاراشٹر کے پونے شہر سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاحوں کا ایک گروپ پہلگام میں اس وقت بڑی مصیبت سے بچ گیا جب ان کے گھوڑے بان نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہوٹل واپس لے آیا۔ یہ معمر سیاح گھوڑوں پر سوار ہوکر پہلگام حملہ سے قبل بائسران چراگاہ کی جانب روانہ تھے۔ مراتی انگاولے اور ان کے دو دوست، ادھو فڈنیس اور ایم جی کلکرنی، تینوں اسّی سال سے زائد عمر کے ہیں۔ انہوں نے پہلگام حملہ سے کئی ماہ قبل کشمیر کے ایک ہفتے کے دورے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اپریل کی 19تاریخ کو یہ شہری سونہ مرگ پہنچے اور 22 اپریل کو، جب دہشت گردوں نے سیاحوں پر فائرنگ کی، یہ تینوں بزرگ بائسرن چراگاہ کی طرف ہی گھوڑوں پر روانہ ہو رہے تھے۔ انگاولے نے بتایا کہ حملے کی خبر سن کر وہ کافی خوفزدہ ہو گئے، لیکن مقامی لوگوں نے انہیں کافی سہارا دیا۔ انگاولے نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’ہمیں حملے کی خبر سن کر خوف محسوس ہوا، لیکن ہمارے ڈرائیور، ہوٹل اسٹاف اور دیگر کشمیریوں نے ہمیں بہت سہارا دیا اور ڈرنے نہیں دیا۔‘‘

ادھو فڈنیس نے بعض میڈیا اداروں کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’وادی کشمیر میں سیاحوں کے لیے ماحول بالکل محفوظ ہے۔ یہاں کے لوگ کافی ہمدرد اور معاون ہیں۔ جو لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں، وہ بے خوف ہو کر آئیں۔‘‘ بزرگ سیاحوں نے کہا کہ ’’معصوم لوگوں اور سیاحوں پر حملے ناقابل قبول ہیں۔‘‘
ادھر، ڈرائیور ارشد احمد، جو ضلع بارہمولہ کے ٹنگمرگ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے سیاحوں کو ہوٹل واپس پہنچایا، جہاں وہ دو راتوں تک مقیم رہے۔ 24 اپریل کو انہوں نے سرینگر میں ایک دن گزارا اور اس کے بعد پونے واپسی کی پرواز لی۔
یاد رہے کہ پہلگام کے بائسرن چراگاہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں 26 افراد، بشمول ایک مقامی گھوڑے بان کے، ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد وادی کشمیر میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور سیاحت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس حملے کی کشمیر بھر میں مذمت کی گئی، ایک روزہ سرکاری سوگ بھی منایا گیا جبکہ 23اپریل کو مکمل ہڑتال رہی، علاوہ ازیں وادی کے بیشتر علاقوں میں حملے کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
دوسری جانب، وادی کشمیر میں گھوڑے بان، ہوٹل مالکان اور سماجی تنظیموں نے سیاحوں کو کشمیر کا دورہ منسوخ نہ کرنے پر مائل کرنے اور نئے آنے والے سیاحوں کو آمادہ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کر دیا ہے، تاہم ڈرائیور ارشد کا کہنا ہے کہ ’’فوری بحالی کی امید بہت کم ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: