جموں (عامر تانترے) : جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اسمبلی میں پہلگام حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ہلاک شدہ سیاحوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار اور مقامی گھوڑے بان سید عادل حسین شاہ کی بہادری کی تعریف کی۔ اسمبلی میں دوران خطاب انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاست کرنے یا مرکزی حکومت سے ریاستی درجہ کی بحالی کے لئے دباؤ ڈالنے کا مناسب وقت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ایک روزہ خصوصی اجلاس، جسے کابینہ کی سفارش پر ایل جی انتظامیہ نے منظوری دی تھی، میں پہلگام کی بائسرن چراگاہ میں 25 سیاحوں اور ایک مقامی گھوڑے بان سید عادل حسین شاہ کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ عمر عبداللہ نے سیاد عادل شاہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا: ’’زندگی کا خوف سب کو ہوتا ہے، لیکن سید عادل نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سیاحوں کو بچایا۔ اب دیگر مقامی افراد کی کہانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں جنہوں نے سیاحوں کی جانیں بچائیں، جو ہماری کشمیری مہمان نوازی کی مثال ہیں۔‘‘
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ یہ وقت سیاست کرنے یا حکومت ہند سے ریاستی درجہ مانگنے کا نہیں ہے۔ عمر نے کہا: ’’ایسے وقت میں اگر میں ریاستی درجہ مانگوں گا تو یہ میرے لیے بددعا ہوگی۔ ریاستی درجہ مانگنے کے اور بھی مواقع آئیں گے، لیکن یہ وقت صرف دہشت گردی کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا ہے۔‘‘ عمر عبداللہ نے اسمبلی اراکین کو میزیں بجانے سے بھی منع کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ سرینگر میں پولیس کنٹرول روم میں متاثرہ خاندانوں سے ملے تو وہ ان سے سوال کرتے رہے کہ ان کا قصور کیا تھا، اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عمر عبداللہ کے مطابق: ’’اکیس سال بعد ایسا حملہ ہوا ہے اور پورے ملک پر اس کا اثر پڑا ہے۔ بطور وزیر سیاحت میں نے ان سیاحوں کو وادی آنے کی دعوت دی تھی، کچھ تعطیلات گزارنے اور کچھ ہنی مون منانے آئے تھے، لیکن میں ان کی حفاظت نہ کر سکا۔‘‘
قبل ازیں، نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد ایوان کے سبھی 88 اراکین نے صوتی ووٹ سے منظور کی۔ اسپیکر نے ایوان میں ایک تعزیتی ریفرنس بھی پیش کیا، جس میں اراکین اور وزیر اعلیٰ کی درخواست پر تمام 26 مقتولین کے نام شامل کیے گئے۔
قرارداد پر بحث کے دوران وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا: ’’یہ وقت متحد رہنے اور عوام کی مدد سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا ہے۔‘‘ انہوں نے رکن اسمبلی سجاد لون کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہتھیار سے دہشت گردی کو تو قابو میں تو رکھا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل شکست صرف عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔‘‘
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ جموں کشمیر کے عوام نے بغیر کسی کال کے سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے اور کینڈل لائٹ مارچ برآمد کیے، جس سے ان کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ہم جانتے ہیں کہ پہلی بار جامع مسجد سرینگر میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، اور اس کی اہمیت کافی زیادہ ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: