سرینگر: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ جمعہ کی صبح حکومتی اتحاد کے قانون سازوں کے ساتھ ایک اہم اجلاس کی صدارت کریں گے، جس کا مقصد خطے میں جاری سیاسی کشیدگی اور پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے وقف ترمیمی بل پر غور کرنا ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ آئندہ دنوں جموں و کشمیر کا دورہ کرنے والے ہیں۔
نیشنل کانفرنس (این سی) کے چیف وِپ مبارک گل کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق طلب کیا گیا اجلاس صبح 11 بجے نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری کی فیئر ویو رہائش گاہ پر منعقد ہوگا۔ اگرچہ اجلاس کا ایجنڈا باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن این سی کے تمام اراکینِ اسمبلی کو شرکت کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وزیر داخلہ امیت شاہ 7 اور 8 اپریل کو جموں و کشمیر کے دورہ پر آ رہے ہیں، اور اس کے کچھ ہی دن بعد 19 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی وادی کشمیر کو کٹرہ سے جوڑنے والی پہلی ٹرین سروس کا افتتاح کریں گے۔

دوسری جانب، حال ہی میں لوک سبھا میں وقف بل کی منظوری کے بعد سیاسی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں اور اسلامی اسکالرز نے اس قانون سازی کو مسلم وقف املاک پر مرکزی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رکنِ اسمبلی حسنین مسعودی نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ مسلم اداروں کو کمزور کرنے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہر مذہب کے اپنے ادارے اور فلاحی ڈھانچے ہوتے ہیں۔ وقف کمیونٹی ویلفیئر کا ایک اہم جز ہے، اور اس کو نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک ہے۔‘‘
ایم ایل اے زڈی بل تنویر صادق نے سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو وزیر اعلی عمر عبداللہ کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ ’’ایک ہنگامی میٹنگ ہے، کوئی عام میٹنگ نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو انتخابی جمہوریت میں حصہ لینے پر مبارکباد دی ہے، این سی ایم ایل اے نے کہا کہ خطے میں منتخب حکومت کو ’’آسانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
نام لیے بغیر ایل جی منوج سنہا کی تنقید کرتے ہوئے صادق نے کہا: ’’اگر بے تاج بادشاہ (یعنی منوج سنہا) منتخب حکومت (این سی حکومت) کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو یہ لوگوں کی مرضی کو مجروح کر رہا ہے، جو جمہوریت کے لیے صحت مند علامت نہیں ہے۔‘‘
ادھر، جموں و کشمیر اسمبلی میں کانگریس کے قانون ساز پارٹی کے رہنما غلام احمد میر نے حالیہ دنوں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی جانب سے 48 افسران کے تبادلوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جموں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میر، جو کانگریس کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں، نے اس فیصلے کے ’’وقت‘‘ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا: ’’لیفٹیننٹ گورنر کو انتظار کرنا چاہیے تھا کیونکہ کاروباری قواعد (بزنس رولز) کی منظوری ابھی باقی ہے۔ انہیں زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ موجودہ قوانین کے مطابق، جے کے اے ایس افسران کے تبادلے کا اختیار وزیر اعلیٰ کے دائرہ کار میں آتا ہے، لیکن اس فیصلے سے یہ تاثر ملا ہے کہ انتظامیہ کے اندر سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ذرائع کے مطابق، امکان ہے کہ جمعہ کے اجلاس میں افسران کے تبادلوں کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
کیا وقف بل کی حمایت کرنے سے نتیش کو 50 سیٹوں پر نقصان ہوگا؟ پورا حساب کتاب تفصیل سے سمجھیں
ہندوستان ’میانمار‘ کی راہ پر گامزن: محبوبہ مفتی کا وقف بل پر رد عمل