ETV Bharat / jammu-and-kashmir

دو دہائی پرانے سرینگر دہشت گرد حملے میں ہائی کورٹ نے کی ریاستی اپیل خارج - HCJKL UPHOLDS ACQUITTAL

ہائی کورٹ نے 2005 کے تلسی باغ دہشت گرد حملے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے تین افراد کی رہائی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ
ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ (فائل فوٹو)
author img

By ETV Bharat Jammu & Kashmir Team

Published : March 24, 2025 at 7:22 PM IST

4 Min Read

سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں جموں کشمیر اینڈ لداخ نے 2005 کے تُلسی باغ دہشت گرد حملے میں تین ملزمان کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس حملہ میں اُس وقت کے وزیر مملکت برائے تعلیم غلام نبی لون ہلاک ہوئے تھے۔ عدالت نے استغاثہ کے شواہد کو ’’تضادات سے بھرپور‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملزمان کے خلاف سازش کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔‘‘

جسٹس سنجیو کمار اور جسٹس پونیت گپتا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹ کے 2012 کے فیصلے کے خلاف ریاستی اپیل کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کا موقف متعدد کمزوریوں کا شکار تھا، اور ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔

یہ مقدمہ 18 اکتوبر 2005 کے اُس خودکش حملے سے جڑا ہے، جس میں کورٹ کے مطابق دو پاکستانی شدت پسندوں ’’ابو اسامہ اور بلال عرف صلاح الدین‘‘ نے تلسی باغ میں واقع سرکاری رہائش گاہوں پر حملہ کیا تھا۔ ان کا ہدف سی پی آئی (ایم) کے رہنما اور اُس وقت کے ایم ایل اے ایم وائی تاریگامی تھے، تاہم حملہ آور غلطی سے غلام نبی لون کے کوارٹر میں گھس گئے، جہاں فائرنگ کے تبادلے میں لون ہلاک ہو گئے۔

ٹرائل کورٹ نے 10 اکتوبر 2012 کو سنائے گئے فیصلے میں سید شبیر بخاری، شکیل احمد صوفی اور مشتاق حسین آکھون کو بری کر دیا تھا۔ استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تینوں ملزمان لشکر طیبہ کے پاکستانی آپریشنل سربراہ بلال عرف سید صلاح الدین کی ہدایات پر حملہ آوروں کو لاجسٹک مدد فراہم کر رہے تھے۔ تاہم، ٹرائل کورٹ نے قرار دیا کہ استغاثہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

ریاستی حکام نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ استغاثہ سازش کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ جسٹس سنجیو کمار نے فیصلے میں لکھا: ’’استغاثہ کے شواہد تضادات سے بھرپور اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ جب سازش کے پہلو کو ثابت نہیں کیا جا سکا، تو ملزمان کی اس حملے میں شمولیت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف واقعات کی وہ مربوط کڑی پیش کرنے میں ناکام رہا، جو انہیں جرم سے جوڑ سکے۔ فیصلے میں کہا گیا: ’’استغاثہ کے پیش کردہ شواہد کا سلسلہ اتنا کمزور ہے کہ اس سے ملزمان کے ملوث ہونے کا واضح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

استغاثہ کا دعویٰ تھا کہ ملزمان اور لشکر طیبہ کے پاکستانی سربراہ کے درمیان مواصلاتی روابط موجود تھے، لیکن عدالت نے کہا کہ ان دعوؤں کو کال ریکارڈز سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح، ملزمان کی جانب سے دی گئی مبینہ معلومات کی بنیاد پر برآمد کیے گئے ویڈیو ٹیپ اور سرکاری کوارٹر کا نقشہ بھی عدالتی جانچ میں معتبر ثابت نہ ہو سکے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب ایک ٹرائل کورٹ تفصیلی جانچ کے بعد کسی کو بری کر دیتی ہے، تو اپیلٹ کورٹ صرف اسی صورت میں اس فیصلے میں مداخلت کر سکتی ہے جب یہ ثابت ہو کہ ٹرائل کورٹ کے نتائج شواہد کے برخلاف ہیں۔ جسٹس کمار نے کہا: ’’اپیلٹ کورٹ کو ٹرائل کورٹ کے بری کیے جانے کے فیصلے میں مداخلت تبھی کرنی چاہیے جب وہ پختہ یقین رکھتا ہو کہ یہ فیصلہ شواہد کی روشنی میں بالکل ناقابلِ قبول ہے۔‘‘

عدالت نے ٹرائل کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کی روشنی میں کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکلتا جس سے ملزمان کو سازش کا حصہ قرار دیا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا: ’’ٹرائل کورٹ نے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور نتیجہ نکالا کہ استغاثہ کسی بھی متعلقہ نکتے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘‘ عدالت نے 14 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ریاستی اپیل کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

  1. نیٹ فلکس شو کے جوڑے کے تنازعے میں نامزد شوہر کے ماموں کے خلاف ایف آئی آر خارج
  2. مبہم الزامات، نذیر رونگا کی نظر بندی غیر آئینی: جموں کشمیر ہائی کورٹ

سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں جموں کشمیر اینڈ لداخ نے 2005 کے تُلسی باغ دہشت گرد حملے میں تین ملزمان کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس حملہ میں اُس وقت کے وزیر مملکت برائے تعلیم غلام نبی لون ہلاک ہوئے تھے۔ عدالت نے استغاثہ کے شواہد کو ’’تضادات سے بھرپور‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملزمان کے خلاف سازش کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔‘‘

جسٹس سنجیو کمار اور جسٹس پونیت گپتا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹ کے 2012 کے فیصلے کے خلاف ریاستی اپیل کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کا موقف متعدد کمزوریوں کا شکار تھا، اور ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔

یہ مقدمہ 18 اکتوبر 2005 کے اُس خودکش حملے سے جڑا ہے، جس میں کورٹ کے مطابق دو پاکستانی شدت پسندوں ’’ابو اسامہ اور بلال عرف صلاح الدین‘‘ نے تلسی باغ میں واقع سرکاری رہائش گاہوں پر حملہ کیا تھا۔ ان کا ہدف سی پی آئی (ایم) کے رہنما اور اُس وقت کے ایم ایل اے ایم وائی تاریگامی تھے، تاہم حملہ آور غلطی سے غلام نبی لون کے کوارٹر میں گھس گئے، جہاں فائرنگ کے تبادلے میں لون ہلاک ہو گئے۔

ٹرائل کورٹ نے 10 اکتوبر 2012 کو سنائے گئے فیصلے میں سید شبیر بخاری، شکیل احمد صوفی اور مشتاق حسین آکھون کو بری کر دیا تھا۔ استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تینوں ملزمان لشکر طیبہ کے پاکستانی آپریشنل سربراہ بلال عرف سید صلاح الدین کی ہدایات پر حملہ آوروں کو لاجسٹک مدد فراہم کر رہے تھے۔ تاہم، ٹرائل کورٹ نے قرار دیا کہ استغاثہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

ریاستی حکام نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ استغاثہ سازش کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ جسٹس سنجیو کمار نے فیصلے میں لکھا: ’’استغاثہ کے شواہد تضادات سے بھرپور اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ جب سازش کے پہلو کو ثابت نہیں کیا جا سکا، تو ملزمان کی اس حملے میں شمولیت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف واقعات کی وہ مربوط کڑی پیش کرنے میں ناکام رہا، جو انہیں جرم سے جوڑ سکے۔ فیصلے میں کہا گیا: ’’استغاثہ کے پیش کردہ شواہد کا سلسلہ اتنا کمزور ہے کہ اس سے ملزمان کے ملوث ہونے کا واضح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

استغاثہ کا دعویٰ تھا کہ ملزمان اور لشکر طیبہ کے پاکستانی سربراہ کے درمیان مواصلاتی روابط موجود تھے، لیکن عدالت نے کہا کہ ان دعوؤں کو کال ریکارڈز سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح، ملزمان کی جانب سے دی گئی مبینہ معلومات کی بنیاد پر برآمد کیے گئے ویڈیو ٹیپ اور سرکاری کوارٹر کا نقشہ بھی عدالتی جانچ میں معتبر ثابت نہ ہو سکے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب ایک ٹرائل کورٹ تفصیلی جانچ کے بعد کسی کو بری کر دیتی ہے، تو اپیلٹ کورٹ صرف اسی صورت میں اس فیصلے میں مداخلت کر سکتی ہے جب یہ ثابت ہو کہ ٹرائل کورٹ کے نتائج شواہد کے برخلاف ہیں۔ جسٹس کمار نے کہا: ’’اپیلٹ کورٹ کو ٹرائل کورٹ کے بری کیے جانے کے فیصلے میں مداخلت تبھی کرنی چاہیے جب وہ پختہ یقین رکھتا ہو کہ یہ فیصلہ شواہد کی روشنی میں بالکل ناقابلِ قبول ہے۔‘‘

عدالت نے ٹرائل کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کی روشنی میں کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکلتا جس سے ملزمان کو سازش کا حصہ قرار دیا جا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا: ’’ٹرائل کورٹ نے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور نتیجہ نکالا کہ استغاثہ کسی بھی متعلقہ نکتے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘‘ عدالت نے 14 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ریاستی اپیل کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

  1. نیٹ فلکس شو کے جوڑے کے تنازعے میں نامزد شوہر کے ماموں کے خلاف ایف آئی آر خارج
  2. مبہم الزامات، نذیر رونگا کی نظر بندی غیر آئینی: جموں کشمیر ہائی کورٹ
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.