جموں(محمد اشرف گنائی) : وقف ترمیمی بل، جو آج لوک سبھا میں پیش ہوئی، پر جموں کشمیر کے مسلم رہنماؤں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس بل کے پاس ہونے کے بعد ملک بھر میں ’’میانمار جیسی مسلم کش صورتحال‘‘ کا خدشہ ظاہر کیا ہے وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ جموں کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے اس بل کو ’’مسلمانوں کی بہتری کے لے اچھا اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔
جموں کے معروف عالم دین اور صدر تنظیم ائمہ مساجد، جموں، مولانا طارق قاری نے مجوزہ وقف ترمیمی بل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’حکومت کی جانب سے وقف قوانین میں تبدیلیاں وقف املاک کی حرمت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔‘‘ مولانا قاری نے دعویٰ کیا کہ ’’حکومت کے اس ترمیمی بل کا مقصد وقف جائیدادوں کو سرکاری املاک میں تبدیل کرنا ہے، جو کہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔‘‘
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے قاری نے خبردار کیا کہ ’’اس اقدام سے وقف املاک کے غلط استعمال اور ممکنہ کرپشن کے دروازے کھل سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو ’’مسلمانوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت‘‘ قرار دیا۔ ادھر، جموں و کشمیر وقف بورڈ کے رکن اور سینئر صحافی سہیل کاظمی نے بھی اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی مذہبی برادری ہے، اور حکومت کو کسی بھی قسم کی ترمیم سے قبل مسلم قیادت اور متعلقہ فریقین سے مشاورت کرنی چاہیے۔‘‘ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’’اگر حکومت وقف بل متعارف کروانا چاہتی ہے تو اسے مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ آمریت کی طرز پر اسے نافذ کرنا ملک اور حکومت کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔‘‘
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وقف ترمیمی بل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ ایک دہائی سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے، جن میں مساجد کی مسماری، ہجومی تشدد اور قبرستانوں پر قبضے جیسے واقعات شامل ہیں۔ ‘‘ محبوبہ مفتی نے ان کارروائیوں کا ذمہ دار حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ٹھہرایا اور ہندو اکثریت سے اپیل کی کہ وہ ان ناانصافیوں کے خلاف کھڑے ہوں۔
محبوبہ نے مزید کہا: ’’یہ ملک تمام شہریوں کا ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہمیں گاندھی کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور آئین کے مطابق ملک کو چلانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ خلیج پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت کو میانمار جیسے جابرانہ حکمرانی والے ممالک کی راہ پر نہیں چلنے دینا چاہیے، جہاں اقلیتوں کے ساتھ شدید زیادتیاں ہو رہی ہیں۔‘‘ دریں اثناء، محبوبہ مفتی نے کشمیری پنڈتوں کے تاریخی دکھوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کو بھی ایسی ہی ناانصافیوں کا سامنا ہے، اور سبھی برادریوں کو مل کر حقوق اور عزت کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر میں غیر بھاجپا سبھی سیاسی تنظیمیں اس بل کی مخالفت کر رہی ہیں تاہم جموں کشمیر وقف چیئرپرسن اور بی جے پی لیڈر درخشاں اندرابی نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ’’حکومت اس بل سے مسلمانوں کی بہبودی چاہتی ہے، یہ بل مسلم قوم کے مفاد میں ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: