لیہہ (رنچین انگمو چومیکچین) : لداخ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کنزس ڈولما نہ صرف بھارت کی پہلی ایسی خاتون ہیں جنہوں نے آئس لینڈ سے یونیسکو کے جی آر او جیوتھرمل پروگرام میں تربیت حاصل کی، بلکہ اب وہ ملک میں اس شعبے کی نمائندہ آواز بن بن کر ابھر رہی ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ’’جیوتھرمل صرف بجلی کے لیے نہیں بلکہ خوراک، گرمی اور زراعت جیسے شعبوں میں براہ راست استعمال کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ لداخ جیسے خطے میں، جہاں سردیوں میں خوراک کی قلت ہوتی ہے، جیوتھرمل توانائی سے چلنے والے گرین ہاؤسز مقامی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں نے چماتھنگ میں ایک گرین ہاؤس پروجیکٹ قائم کیا، جہاں -25°C میں بھی خواتین نے سبزیوں کی کاشت کی۔‘‘
ڈاکٹر کنزس نے پُوگا پروجیکٹ پر بھی روشنی ڈالی، یہ پروجیکٹ بھارت کا پہلا بڑا جیوتھرمل منصوبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں فی الحال 1 میگاواٹ کا پائلٹ منصوبہ زیر تعمیر ہے، جس میں او این جی سی، یو ٹی انتظامیہ اور لیہہ کونسل شامل ہیں۔ ان کے مطابق ’’ابھی صرف ڈرلنگ ہو رہی ہے، فریکچرنگ نہیں، اس لیے زلزلہ کا خطرہ کم ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ لداخ میں پانچ سے چھ گرم چشمے موجود ہیں جن سے نہ صرف توانائی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ سرحدی فوجی اہلکاروں کے لیے قدرتی گرم پانی کا ذریعہ بھی ہیں۔ جیوتھرمل توانائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ، ان کے مطابق، پالیسی فریم ورک کی عدم موجودگی اور سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’اگر حکومت سنجیدگی سے جیوتھرمل پر توجہ دے تو بھارت 2070 کا نیٹ زیرو گول حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے پالیسی سازوں سے اپیل کی کہ جیوتھرمل کو توانائی منصوبوں میں شامل کیا جائے، ماہرین کو تربیت دی جائے اور نیشنل جیوتھرمل پالیسی جلد سے جلد نافذ کی جائے۔ ان کے مطابق ’’یہ صرف اور صرف بجلی کا سورس نہیں، بلکہ مستقبل کی توانائی خودمختاری کا راستہ ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: