سرینگر: عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت نے جموں و کشمیر میں یکم اپریل 2025 سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس اضافے سے مہنگائی بڑھے گی اور تمام شعبے متاثر ہوں گے۔ حکومت کی جانب یہ اقدام ایک ایسے وقت میں انجام دیا گیا ہے جب چھ ماہ قبل ہی عوام نے یونین ٹیریٹری میں پہلی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا، اس امید کے ساتھ کہ وہ اقتصادی بوجھ کم کرے گی، لیکن اب عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
نئی قیمتیں اور ٹیکس ڈھانچہ
محکمہ خزانہ کے پرنسپل سیکریٹری سنتوش ڈی ویدیا (IAS) کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق موٹر اسپرٹ (پٹرول) پر 24 فیصد ٹیکس (فی لیٹر 3.50 روپے کی چھوٹ کے ساتھ) اور 2 روپے فی لیٹر سیس(Cess ) عائد کیا گیا ہے۔ ڈیزل پر 16 فیصد ٹیکس (فی لیٹر 4.50 روپے کی چھوٹ کے ساتھ) اور 1 روپے فی لیٹر سیس عائد کیا گیا ہے۔ ایوی ایشن ٹربائن فیول (ATF) پر 5 فیصد جبکہ نیچرل گیس پر 21 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
اس حکم نامے کے بعد اب سرینگر میں فی لیٹر پٹرول 100.93 روپے اور ڈیزل 87.01 روپے میں دستیاب ہوگا۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر موٹر اسپرٹ اینڈ ڈیزل آئل (ٹیکسیشن آف سیلز) ایکٹ سموات 2005 کی دفعات 3 اور 3A کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔
عوامی اور سیاسی ردعمل
ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹرز اور گاڑی مالکان میں بے چینی پائی جا رہی ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ترجمان مُہیت بھان نے اس فیصلے کو عوام پر ’’ایک اور بوجھ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’سرینگر میں پٹرول 1.25 روپے اور ڈیزل 2.14 روپے فی لیٹر مہنگا ہوگیا ہے۔ این سی حکومت مسلسل ٹیکس بڑھا کر عوام کو پریشان کر رہی ہے، جبکہ خود لگژری گاڑیوں میں سفر کر رہی ہے۔‘‘
پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ کے رکن اسمبلی سجاد غنی لون نے کہا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے عوامی ٹرانسپورٹ پر براہ راست اثر پڑے گا۔ "روزانہ 530 ٹینکرز، ہر ایک میں 12,000 لیٹر ایندھن، سالانہ 500 کروڑ روپے کے اضافے کا باعث بنے گا۔ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ریلیف کا 80 فیصد عوام کو ٹرانسپورٹ اخراجات کے مد میں واپس چکانا پڑے گا، جبکہ ایلیٹ کلاس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
عوامی اتحاد پارٹی کے رہنما اشتیاق قادری نے خبردار کیا کہ یہ اضافہ دوسرے کاروباری شعبوں میں مہنگائی کو بڑھاوا دے گا، ’’یہ اضافہ ٹرانسپورٹ، روزمرہ اشیاء، اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کو مہنگا کرے گا۔ یہاں تک کہ ہوائی ٹکٹوں کی قیمت بھی بڑھ جائے گی، جس سے بے مثال افراطِ زر ہوگا۔‘‘
عوامی مشکلات اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کا مؤقف
عام لوگ بھی اس اضافے پر ناراض ہیں۔ سرینگر کے ایک مقامی شہری غلام نبی نے کہا: ’’حکومت سے امید تھی کہ وہ ریلیف دے گی، لیکن قیمتوں میں اضافے نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔‘‘
ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی اس فیصلے سے پریشان ہے۔ ایک ٹرانسپورٹر ریاض احمد نے کہا: ’’حکومت ہمیشہ سب سے پہلے ہمیں نشانہ بناتی ہے۔ اگر ہم کرایہ بڑھائیں گے تو عوام ہم پر برس پڑے گی۔ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘‘
حکومت کا موقف
حکومت نے اضافے کا دفاع کرتے ہوئے اسے ’’ٹیکس میں چھوٹ کم کرنے کا اقدام‘‘ قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے مشیر ناصر اسلم وانی نے کہا: ’’حکومت نے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ بجٹ میں پٹرول اور ڈیزل پر دی جانے والی رعایت کو کم کیا ہے۔‘‘ انہوں نے عوام پر بوجھ بڑھانے کے الزامات کو رد کرتے ہوئے حکومت کا دفاع کیا: ’’عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے، جس کی عوام نے پذیرائی بھی کی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں :
نیند سے بیدار ہوتے ہی لگا جھٹکا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، جانیے تازہ ترین دام