ETV Bharat / jammu-and-kashmir

لداخ کا مقدس جونیپر زوال پذیر، ماہرین نے بنائی خطرے کی گھنٹی - LADAKH JUNIPER DECLINE

لداخ میں مذہبی و ثقافتی طور پر مقدس جونیپر تیزی سے ناپید ہو رہا ہے۔ ماہرین فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لداخ کا مقدس جونیپر زوال پذیر
لداخ کا مقدس جونیپر زوال پذیر (Special Arrangement)
author img

By ETV Bharat Jammu & Kashmir Team

Published : April 3, 2025 at 8:22 PM IST

4 Min Read

لیہہ (رنچین انگمو چومیکچین): لداخ کے گھروں اور بدھ مت موناسٹریز میں جونیپر کی خوشبو عام ہے۔ یہ درخت، جسے مقامی طور پر شُکپا کہا جاتا ہے، مذہبی و ثقافتی رسومات میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، مسلسل زیادہ استعمال کی وجہ سے اس کے قدرتی جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس پر ماہرین نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماہر نباتات اور لیہہ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر کونچوک دورجے کے مطابق، ’’جونیپر کا نہ صرف مذہبی بلکہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی بے حد اہم کردار ہے۔ یہ مٹی کے کٹاؤ کو روکتا ہے، فضا کو صاف رکھتا ہے اور مقامی حیاتیاتی نظام کو متوازن رکھتا ہے۔‘‘

لداخ میں جونیپر کی چار اقسام پائی جاتی ہیں: جونیپرس سیمی گلوبوسا (ریاستی درخت)، جونیپرس پولی کارپوس، جونیپرس کمیونس اور جونیپرس ریکرووا۔ ان میں سے پہلی دو اقسام مذہبی و ثقافتی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں، لیکن یہی اقسام سب سے زیادہ معدوم ہو رہی ہیں۔

ا
لداخ میں جونیپر مذہبی طور انتہائی اہم ہے۔ (Special Arrangement)

کیا توازن ممکن ہے؟
بدھ مت روایات میں جونیپر کو نہایت پاکیزہ تصور کیا جاتا ہے۔ لہاتو نامی مقدس مقامات پر اس کی ٹہنیاں رکھی جاتی ہیں، جبکہ لوسر (لداخی نیا سال) کے موقع پر ان ٹہنیوں کو تازہ شاخوں سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، موناسٹریز (خانقاہوں) میں مجسموں کے اندر جونیپر کی شاخیں رکھی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ مذہبی روایات اس درخت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر کونچوک کا کہنا ہے کہ ’’لوسر کے موقع پر ایک خاندان اوسطاً ایک قنطار (100 کلو) جونیپر استعمال کرتا ہے، جبکہ پورے لداخ میں یہ مقدار 50 سے 100 قنطار تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

ا
لداخ میں جونیپر کے جنگلات تیزی سے گھٹ رہے ہیں (Special Arrangement)

جونیپر کی فطری افزائش بہت سست ہے۔ اگر 100 بیج لگائے جائیں تو صرف 5 فیصد ہی نشوونما پاتے ہیں۔ سخت بیج کے خول، قبل از وقت بیجوں کی چنائی اور بیماریوں کی وجہ سے یہ درخت قدرتی طور پر کم اگتا ہے۔ ایسے میں بے دریغ کٹائی اس کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

تحفظ کی کوششیں کافی ہیں؟
جونیپر کے تحفظ کے لیے لیہہ کے محکمہ جنگلات نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 2022 میں 19 خانقاہوں کو 150 جونیپر پودے فراہم کیے گئے، جن میں ہِمس، تھِکسی اور چمری جیسی بڑی خانقاہیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ، لیہہ جنگلات ڈویژن نے 2020 سے 2025 تک تحفظات کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت تقریباً 60 ہیکٹر رقبے پر جونیپر کی افزائش کی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ خاص طور پر کھالسی، نوبرا اور لیہہ کے علاقوں میں نافذ کیا جا رہا ہے۔

مقامی کمیونٹیز بھی اپنے طور پر تحفظاتی اقدامات کر رہی ہیں۔ اسکر بُچن کے کونسلر، لُندُپ دورجے کے مطابق: ’’ہمارے علاقے میں جونیپر کی کٹائی پر سخت پابندی ہے۔ اگر کوئی غیر قانونی طور پر کاٹنے کی کوشش کرے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔‘‘

حل کیا ہے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ سائنسی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جونیپر کی افزائش ممکن ہے۔ ڈاکٹر کونچوک خبردار کیا: ’’اگر ہم مذہبی استعمال پر مکمل پابندی عائد کرتے ہیں تو روایتی ثقافت ختم ہو جائے گی، لیکن اگر یوں ہی بے دریغ استعمال جاری رہا تو جونیپر ہمیشہ کے لیے ناپید ہو سکتا ہے۔‘‘

ان کے مطابق ایک ممکنہ حل ٹشو کلچر اور مصنوعی طریقوں سے جونیپر کی کاشت ہے تاکہ قدرتی جنگلات کو نقصان پہنچائے بغیر اس کا استعمال جاری رکھا جا سکے۔ لیکن اس کے لیے مزید سائنسی تحقیق اور سروے ضروری ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو لداخ کے مقدس جونیپر درخت صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔

ا
ماہرین نے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ (Special Arrangement)

یہ بھی پڑھیں:

لداخ میں بودھوں کا احتجاج، بودھ گیا میں عبادت گاہ کا کنٹرول دیا جائے

لیہہ میں کانگریس سرگرم، ملازمتوں اور زمین کے تحفظ کی مہم چھیڑ دی

لیہہ (رنچین انگمو چومیکچین): لداخ کے گھروں اور بدھ مت موناسٹریز میں جونیپر کی خوشبو عام ہے۔ یہ درخت، جسے مقامی طور پر شُکپا کہا جاتا ہے، مذہبی و ثقافتی رسومات میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، مسلسل زیادہ استعمال کی وجہ سے اس کے قدرتی جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس پر ماہرین نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماہر نباتات اور لیہہ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر کونچوک دورجے کے مطابق، ’’جونیپر کا نہ صرف مذہبی بلکہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی بے حد اہم کردار ہے۔ یہ مٹی کے کٹاؤ کو روکتا ہے، فضا کو صاف رکھتا ہے اور مقامی حیاتیاتی نظام کو متوازن رکھتا ہے۔‘‘

لداخ میں جونیپر کی چار اقسام پائی جاتی ہیں: جونیپرس سیمی گلوبوسا (ریاستی درخت)، جونیپرس پولی کارپوس، جونیپرس کمیونس اور جونیپرس ریکرووا۔ ان میں سے پہلی دو اقسام مذہبی و ثقافتی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں، لیکن یہی اقسام سب سے زیادہ معدوم ہو رہی ہیں۔

ا
لداخ میں جونیپر مذہبی طور انتہائی اہم ہے۔ (Special Arrangement)

کیا توازن ممکن ہے؟
بدھ مت روایات میں جونیپر کو نہایت پاکیزہ تصور کیا جاتا ہے۔ لہاتو نامی مقدس مقامات پر اس کی ٹہنیاں رکھی جاتی ہیں، جبکہ لوسر (لداخی نیا سال) کے موقع پر ان ٹہنیوں کو تازہ شاخوں سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، موناسٹریز (خانقاہوں) میں مجسموں کے اندر جونیپر کی شاخیں رکھی جاتی ہیں۔ تاہم، یہ مذہبی روایات اس درخت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر کونچوک کا کہنا ہے کہ ’’لوسر کے موقع پر ایک خاندان اوسطاً ایک قنطار (100 کلو) جونیپر استعمال کرتا ہے، جبکہ پورے لداخ میں یہ مقدار 50 سے 100 قنطار تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

ا
لداخ میں جونیپر کے جنگلات تیزی سے گھٹ رہے ہیں (Special Arrangement)

جونیپر کی فطری افزائش بہت سست ہے۔ اگر 100 بیج لگائے جائیں تو صرف 5 فیصد ہی نشوونما پاتے ہیں۔ سخت بیج کے خول، قبل از وقت بیجوں کی چنائی اور بیماریوں کی وجہ سے یہ درخت قدرتی طور پر کم اگتا ہے۔ ایسے میں بے دریغ کٹائی اس کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

تحفظ کی کوششیں کافی ہیں؟
جونیپر کے تحفظ کے لیے لیہہ کے محکمہ جنگلات نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 2022 میں 19 خانقاہوں کو 150 جونیپر پودے فراہم کیے گئے، جن میں ہِمس، تھِکسی اور چمری جیسی بڑی خانقاہیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ، لیہہ جنگلات ڈویژن نے 2020 سے 2025 تک تحفظات کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت تقریباً 60 ہیکٹر رقبے پر جونیپر کی افزائش کی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ خاص طور پر کھالسی، نوبرا اور لیہہ کے علاقوں میں نافذ کیا جا رہا ہے۔

مقامی کمیونٹیز بھی اپنے طور پر تحفظاتی اقدامات کر رہی ہیں۔ اسکر بُچن کے کونسلر، لُندُپ دورجے کے مطابق: ’’ہمارے علاقے میں جونیپر کی کٹائی پر سخت پابندی ہے۔ اگر کوئی غیر قانونی طور پر کاٹنے کی کوشش کرے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔‘‘

حل کیا ہے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ سائنسی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جونیپر کی افزائش ممکن ہے۔ ڈاکٹر کونچوک خبردار کیا: ’’اگر ہم مذہبی استعمال پر مکمل پابندی عائد کرتے ہیں تو روایتی ثقافت ختم ہو جائے گی، لیکن اگر یوں ہی بے دریغ استعمال جاری رہا تو جونیپر ہمیشہ کے لیے ناپید ہو سکتا ہے۔‘‘

ان کے مطابق ایک ممکنہ حل ٹشو کلچر اور مصنوعی طریقوں سے جونیپر کی کاشت ہے تاکہ قدرتی جنگلات کو نقصان پہنچائے بغیر اس کا استعمال جاری رکھا جا سکے۔ لیکن اس کے لیے مزید سائنسی تحقیق اور سروے ضروری ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو لداخ کے مقدس جونیپر درخت صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔

ا
ماہرین نے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ (Special Arrangement)

یہ بھی پڑھیں:

لداخ میں بودھوں کا احتجاج، بودھ گیا میں عبادت گاہ کا کنٹرول دیا جائے

لیہہ میں کانگریس سرگرم، ملازمتوں اور زمین کے تحفظ کی مہم چھیڑ دی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.