سرینگر (نیوز ڈیسک) : لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پیش کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر کی تقریباً سبھی غیر بھاجپا سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کیا ہے۔ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے کہا ہے کہ اس کے ارکان پارلیمنٹ اس بل کی سختی سے مخالفت کریں گے، جبکہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے اسے ’’مسلمانوں کے خلاف سازش‘‘ قرار دیا ہے۔
پی ڈی پی صدر اور جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا کہ ’’اگر لوگ خاموش رہے تو ’’بھارت میانمار کے راستے پر چل پڑے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جانا چاہیے، نہ کہ ’’بی جے پی کے ایجنڈے کے تحت‘‘۔
محبوبہ مفتی کے مطابق: ’’اگر ملک کے لوگ چاہتے ہیں کہ بھارت میانمار نہ بنے یا کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو، تو انہیں آواز اٹھانی ہوگی۔ اگر خاموش رہے، تو کوئی بھی اس ملک کو بکھرنے سے نہیں روک سکتا۔‘‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وقف بل کا مقصد مسلمانوں کو بےاختیار کرنا ہے، اور دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک دہائی سے مسلمان مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔ ’’بی جے پی سے ہمیں کوئی امید نہیں، کیونکہ گزشتہ 10-12 برسوں میں مسلمانوں کو سرعام پیٹ پیٹ کر مارا گیا، ان کی مساجد مسمار کی گئیں، اور قبرستانوں پر قبضہ کیا گیا۔‘‘
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے بھی وقف بل کو ’’مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر حملہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’’ایک اور دائیں بازو کی مداخلت‘‘ سے تعبیر کیا: لون نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’’وقف، اپنی تعریف کے مطابق، مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت والی جائیداد کا محافظ ہے۔ یہ ایک اسلامی تصور ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے مجوزہ ترمیم ’’ہمارے عقیدے میں کھلم کھلا مداخلت اور وقف کے اصل ذمہ داروں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے‘‘ کے مترادف ہے۔
گزشتہ روز سرینگر میں خواتین کے لیے مفت بس سروس کی تقریب کے حاشیہ پر عمر عبداللہ نے بھی واضح کیا کہ ان کی جماعت اس بل کو قبول نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ بل ایک خاص مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہر مذہب کے اپنے ادارے اور فلاحی شعبے ہوتے ہیں۔ ہماری فلاحی سرگرمیاں وقف کے ذریعے انجام پاتی ہیں، اور اس ادارے کو نشانہ بنانا افسوسناک ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: