حیدرآباد: جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے 2019 میں آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں نہ صرف تقسیم کیا بلکہ اسکا درجہ گرا دیا، تو مقامی سیاستدانوں نے نئی دہلی پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔ ان سیاستدانوں میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے دو سابق وزرائے اعلیٰ اور باپ بیٹے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ انکا الزام تھا کہ دلی نے کشمیر کے ساتھ دھوکہ بازی کی بالخصوص جس انداز سے یہ فیصلہ لیا اور عملایا گیا۔
تاہم بھارت کے سراغ رساں ادارے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ یا آر اینڈ اے ڈبلیو (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے اپنی نئی کتاب ’’دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی - این ان لائیکلی فرینڈشپ‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ان سے مشورہ کرنے پر ’’دہلی کے ساتھ کام کرنے‘‘ کو تیار تھے۔ اتنا ہی نہیں، دلت کے مطابق، فاروق نے انہیں بتایا کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس ’’جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی تجویز پاس کر سکتی تھی۔‘‘ ایک وزیر اعلیٰ اور ایک جاسوس کے درمیان انوکھی دوستی پر مشتمل اس کتاب میں دلت نے چند حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ نے ان سے شکایت کی کہ نئی دہلی نے انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ ہم نے مدد کی ہوتی، دلت نے فاروق عبداللہ کے حوالے سے انکی تازہ ترین کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ ان سے 2020 میں ان سیاسی تبدیلیوں کے بعد پہلی بار ملے۔ اس کتاب کو اشاعتی ادارے جیگرناٹ نے شائع کیا ہے۔
دلت کہتے ہیں کہ فاروق عبداللہ کو دفعات کی منسوخی اور قید و بند سے بہت گہری چوٹ لگی تھی لیکن انکا یہ کہنا کہ وہ اس اقدام میں ’’مرکز کی مدد‘‘ کر سکتے تھے، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فاروق عبداللہ ایسی خوفناک سیاسی صورتحال میں جب عوامی دباؤ کا سامنا بھی ہو، کیسے عملی انداز سے سوچنے والے سیاستدان ہیں۔
دفعہ 370 کی منسوخی سے چند دن قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ فاروق اور عمر کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے، دلت لکھتے ہیں: ملاقات کے دوران کیا ہوا، کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ فاروق نے یقینی طور پر کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
دلت کا استدلال ہے کہ فاروق عبداللہ کی خانہ نظر بندی کشمیر کا سب سے افسوسناک واقعہ ہے۔ انکے مطابق نیشنل کانفرنس سربراہ نے انکے ساتھ ملاقات میں اس بات کا گلہ کیا کہ انہیں نظر بند کیوں رکھا گیا۔ جب میں نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے تلخ لہجے میں کہا ’’کر لو اگر کرنا ہے، پر یہ اریسٹ کیوں کرنا تھا۔‘‘
اپنی کتاب میں اے ایس دلت فاروق عبداللہ اور انکے بیٹے عمر عبداللہ کا تقابلی مطالعہ بھی کر رہے ہیں۔ دونوں باپ بیٹے جموں و کشمیر ریاست کے مختلف اوقات پر وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور عمر عبداللہ فی الوقت مرکزی زیر انتظام علاقے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
وہ لکھتے ہیں، فاروق نے ہمیشہ دہلی کے شانہ بشانہ رہنے کی کوشش کی ہے لیکن دہلی کی شرائط پر نہیں۔ انکے مطابق عمر عبداللہ اس سے مختلف ہیں۔ وہ دہلی کو خوش کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
فاروق عبداللہ ہمیشہ برابری کی سطح پر سیاست کرنے کے قائل ہیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا جسے دہلی کبھی سمجھ نہیں سکتی۔ مثال کے طور پر، مارچ 2020 میں نظر بندی سے رہائی کے بعد، دہلی کو توقع تھی کہ وہ آئیں گے اور وزیر اعظم سے ملیں گے۔ لیکن فاروق نے یہ بہانہ بنا کر وقت نکال لیا کہ اسے اپنی دونوں آنکھوں میں موتیا بند کا آپریشن کرانا تھا۔ وہ طویل مدت کے بعد جولائی 2020 میں دہلی گئے۔ یہ فرق ہے عمر اور فاروق عبداللہ میں۔ جب عمر کہتا ہے کہ وہ دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، تو وہ دہلی کی خوشامد میں آنکھیں بچھا رہا ہوتا ہے۔ فاروق وہی کرتا ہے جو اس کے خیال میں اس کے لوگوں کے لئے بہتر ہوتا ہے۔
دلت نے اشارتاً لکھا ہے کہ نئی دہلی نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ 2014 میں حکومت بنانے کا ارادہ کیا تھا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ انکے مطابق فاروق کے ساتھ دلی کی بس اکثر چھوٹ جاتی ہے۔ اپنے اس دعوے کیلئے وہ 2014 میں انکے ساتھ ہوئی ایک ٹیلیفونک بات چیت کا حوالہ دیتے ہیں جو انہیں دلی سے اسوقت موصول ہوئی جب وہ گوا میں چھٹیاں منارہے تھے۔
میں گوا میں چھٹیاں منا رہا تھا، جب مجھے دہلی میں آئی بی ہیڈکوارٹر سے فون آیا کہ آیا میرے پاس ڈاکٹر صاحب کا لندن کا ٹیلی فون نمبر ہے؟ ’’میرے پاس ہے‘‘، میں نے جواب دیا، ’’لیکن میرے پاس یہ ساحل سمندر پر کیسے ہوگا، لیکن بات کیا ہے اب آپ فون کرنا چاہ رہے ہو، لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
کالر نے مجھے بتایا ’’نہیں، نہیں، ہم صرف ان کی صحت کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے۔‘‘
لیکن اس معاملے میں بھی، یعنی صحت کے بارے میں پوچھنے کیلئے بھی آپ نے دیر کر دی، دلت نے آئی بی کے کالر کو، جسکی انہوں نے شناخت نہیں کی ہے، بتایا۔
انکے مطابق یہ ایک اور ثبوت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کتنے قد آور لیڈر ہیں۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ دہلی فاروق عبداللہ کو کتنا بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کرے لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ فاروق عبداللہ نہ صرف اپنی پارٹی کا چہرہ ہیں بلکہ پورے ہندوستان میں وادی کشمیر کا چہرہ ہیں۔
فاروق عبداللہ کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کو یاد کرتے ہوئے سابق را چیف کہتے ہیں کہ فاروق عبداللہ کو اس بات میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ وہ اپنے والد شیخ عبداللہ کی طرح بننا نہیں چاہتے۔ دلت کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کشمیر کے سب سے قدآور لیڈروں میں سے ایک تھے اگرچہ سب سے قد آور نہیں تھے۔
فاروق عبداللہ کے ساتھ اپنی طویل ملاقاتوں کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے دلت لکھتے ہیں کہ فاروق اپنی ایک الگ شخصیت اور پہچان بنانا چاہتے تھے ۔یہ کتنا مشکل کام تھا جو اس نے خود کیلئے متعین کیا کیونکہ عبداللہ خانوادے کی سیاسی وراثت سے انحراف کرنا آسان نہیں ہے۔
دلت کو 6 مارچ 1990 کا ایک واقعہ بھی یاد ہے جب انہیں دہلی سے ایک فون آیا، جس میں اسے احمد آباد سے آئی بی کے ایک افسر آر سی مہتا کے سرینگر پہنچنے کی اطلاع دی گئی۔ کالر نے انہیں کہا کہ وہ مہتا کو ہوائی اڈے پر ریسیو کریں۔
میں نے شائستگی سے اقرار کیا اور فون رکھ دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کون مائی کا لال اس وقت سرینگر کا دورہ کرے گا۔ لیکن کال کے چند لمحوں بعد مجھے ایک خیال آیا اور میرے جسم میں ارتعاش پیدا ہوا۔ مہتا کے آنے کا مطلب تھا کہ میں جا رہا ہوں۔ چنانچہ دوسرے ہی لمحے میں نے دہلی کو واپس فون گھمایا۔ مہتا صاحب کو میں ریسیوکروں گا، لیکن مجھے کب دہلی آنا ہے۔ وہاں سے جواب ملا کہ جتنی جلدی ہو سکے۔ مطلب صاف تھا کہ کشمیر میں دلت کا بستر گول کیا جا چکا تھا۔
دُلت دہلی کال ملانے کے فوراً بعد اگلی کال فاروق عبداللہ کو کرتے ہیں اور انہیں مہتا کی آمد کے بارے میں مطلع کرتے ہیں۔ فاروق عبداللہ ان سے استفسار کرتے ہیں کہ وہ مہتا کو انکے ساتھ چائے پلانے کیلئے کب لا سکتے ہیں۔ دلت نے فاروق کے ساتھ اس موقعے پر ہوئی گفتگو کی دلچسپ تفصیلات دی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ موقعہ تھا جب کشمیر میں حالات انتہائی سنگین تھے اور سرکاری مشنری کم و بیش مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔
فاروق عبداللہ کو اپنی تبدیلی اور مہتا کی سرینگر آمد کی خبر دینے کے بعد، دلت کے مطابق، فون پر خاموشی طاری ہوئی۔ واقعتاً فاروق اتنا ہی حیران تھا جیسا کہ میں تھا۔ چند لمحوں کی خاموشی توڑتے ہوئے فاروق نے آخر کار پوچھ ہی لیا۔’’کیوں آ رہا ہے‘‘؟ ’’میری چھٹی ہو رہی ہے،‘‘ میں نے اطمینان سے کہا۔ (مجھے ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔) دلت نے اشارتاً کہا ہے کہ فاروق عبداللہ کو انکی تبدیلی راس نہیں آئی تاہم انہوں نے مہتا سے ملنے کیلئے حامی بھر لی لیکن ساتھ ہی کہا کہ مہتا کی آمد سے ایک گھنٹے پہلے آپ علیحدگی میں ملاقات کیلئے آجانا۔
دُلت لکھتے ہیں کہ انہیں وہ ملاقات آج بھی یاد ہے جیسے یہ کل کہ ہی بات ہو۔ انکے مطابق فاروق عبداللہ نے انکے ساتھ کبھی مبہم باتیں نہیں کیں اور نہ ادھر ادھر گھمانے پھرانے والا مکالمہ کیا لیکن اس آخری گفتگو کے دوران وہ زیادہ ہی بے تکلف اور دو ٹوک تھے۔ مجھے وہ بات یاد ہے جو اس نے مجھے اس شام کہی تھی۔ ’’تم جانتے ہو،‘‘ اس نے اطمینان سے کہا، ’’میں اپنے باپ (شیخ محمد عبداللہ) کی طرح نہیں ہوں۔ براہ کرم اسے سمجھیں۔ میں 12 سال جیل میں گزارنے کے لیے سیاست میں نہیں آیا۔ دہلی میں جو بھی اقتدار میں ہے میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہوں گا،‘‘ دُلت، فاروق عبداللہ کی بات کو نقل کرتے لکھتے ہیں۔
اپنی تازہ ترین تصنیف کے بارے میں دلت کہتے ہیں کہ یہ کتاب سوانح عمری نہیں ہے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرے گزارے ہوئے وقت کی یادداشت ہے۔
جب میں نے یہ کتاب لکھنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا، تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے اس پر بات کی، درحقیقت، ہم نے اس کے بارے میں کئی بار بات کی، انہوں نے کبھی ’’نہیں‘‘، نہیں کہا، لیکن کبھی بھی واضح ہاں بھی نہیں تھی - 2024 کے موسم گرما تک، جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے آخر کار اسے لکھنا شروع کر دیا ہے۔تو انہوں نے کہا کہ شروع کرو۔
نیشنل کانفرنس نے دلت کے ریمارکس کو انکی ذہنی اختراع قرار دیا ہے۔ گو کہ کہ فاروق عبداللہ از خود کتاب پر تبصرہ کرنے کیلئے دستیاب نہیں تھے تاہم نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور اسمبلی رکن تنویر صادق نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے، اس بات کی تردید کی کہ فاروق نے 370 کی منسوخی کی حمایت کی، انہوں نے کتاب میں انکشافات کو ’’محض تخیلاتی‘‘ قرار دیا۔
تنویر صادق کہتے ہیں کہ اگر آپ کتاب کو دیکھیں اور اس میں جو کچھ وہ لکھتے ہیں، تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ اپنے ہی الفاظ کی تردید کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ حکومت ہند نے فاروق عبداللہ کی حراست میں لینے کے بعد ان کے خیالات کا اندازہ لگانے کے لیے سات ماہ تک انتظار کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اقدام کو چیلنج کرنے کے لیے جیل سے باہر آنے کے بعد فاروق عبداللہ نے پی اے جی ڈی کو سرگرم کیا۔
واضح رہے کہ پی اے جی ڈی یا پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن، سیاسی جماعتوں کا ایک گروپ تھا جسے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی مخالفت اور جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا تھا یہ اتحاد 4 اگست 2019 کو قائم کیا گیا تھا لیکن 5 اگست کے بعد اس میں شامل اکثر لیڈروں کو نظر بند کیا گیا۔ جب کئی ماہ بعد فاروق عبداللہ اور پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی نے اسے دوبارہ منظم کیا تو ابتدا میں کچھ دیر تک سرگرم رہنے کے بعد اس کی رفتار ماند پڑگئی کیونکہ کئی جماعتوں نے بعد میں اسکے ساتھ اپنا ناطہ توڑ دیا۔
تنویر صادق نے بتایا کہ دلت کی پچھلی کتاب میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سرپرست اور سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’دلت کتابوں کے ذریعے سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں تخیلاتی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں:
دہلی کشمیر کو بلیک اینڈ وائٹ کی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن یہ اصل میں گرے ہے، سابق را چیف
بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنا ہی ہوگا، فاروق عبداللہ