سرینگر: (پرویزالدین) کئی برسوں سے جہاں ٹیٹو بنوانے کے رواج میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ وہیں وادی کشمیر میں آجکل ٹیٹو ہٹانے کا رجحان نوجوانوں میں بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں ان دنوں باسط بشیر کا یہ ویلی کئیر کلینک ٹیٹو ریموونگ کا مرکز بن چکا ہے اور اب تک باسط نے ایک لاکھ سے زائد ٹیٹوز ریمو کئے ہیں ۔جن میں مختلف قسم کی ٹیٹوز کے علاوہ رائفل ٹیوٹ بھی خاص طور شامل ہیں۔
باسط بشیر جدید مشنری کا استعمال کرکے نوجوانون کی جلد پر بنائے گئے ٹیٹو ایک سخت اور صبر آزما عمل کے بعد ہٹاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مختلف ذاتی اور سماجی وجوہات کی بنیاد پر اپنے جسم پر موجود ان نشانات کا صاف کرنے کیلئے ان سے رجوع کرتے ہیں۔ ان میں ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جنہوں نے اپنے جسموں پر ہتھیاروں کے عکس بنوائے تھے۔ کئی نوجوانوں نے کلاشنکوف، ہینڈ گرینیڈ یا اسلامی تنظیموں کے لوگو بھی گدوائے تھے تاہم کشمیر میں سلامتی صورتحال میں پیدا ہوئی حالیہ تبدیلیوں کے بعد اب یہ نوجوان ان عکسوں کو صاف کروارہے ہیں تاکہ انہیں کسی مسئلے کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔
اس کلینک میں روانہ کی بنیاد پر سیکنڑوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھ ، بازوں، گردن اور سینے وغیرہ پر سیاہی سے ڈائزائن کئے گئے اس طرح کے ٹیٹوز مٹانے کے لیے آتے ہیں ۔
باسط بشیر کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ہاتھ اور بازو پر اس طرح کی تصویر کشی کرنا ایک فیشن بن چکا تھا لیکن اب ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ نوجوان کو ٹیٹو بنوانے پر پچھتاوا اور افسوس ہوتا ہے کیونکہ سماجی اور مذہبی طور یہ ناپسندیدہ عمل ہے ۔
کشمیر میں اس طرح کے ٹیٹو ہٹانے کے بڑھتے رجحان کیلئے کئی وجوہات کارفرما ہیں جن میں مذہبی ممانعت کا بڑا عنصر بھی شامل ہیں۔ اسلامی اسکالرز کے مطابق اسلام میں جسم پر کسی بھی قسم کی تصویر کشی کی ممانعت کی گئی ہے اور یہ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق تصور نہیں کیا جا تا ہے۔
واجد نثار ایک مقامی نوجوان ہے جس نے اپنا ٹیٹو ہٹایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ ٹیٹو بچپن میں شوقیہ طور بنوایا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ سمجھ آگیا ہے کہ اسلامی طور پر یہ جائز نہیں ہے اور ہمارے دین میں جسم کے کسی بھی حصے پر لکھنے یا کوئی تصویر بنوانے کی سخت ممانعت ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔اس لئے میں نے یہ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
سال 2022 میں باسط بشیر نے اس ٹیو ریموونگ کلینک کی شروعات کیں اور چند مہینوں تک یہ کام بالکل مفت بھی کیا۔ لیکن کلینک کے اخراجات کو دیکھتے ہوئے اب ٹیٹو صاف کرنے کے لیے وہ اجرت بھی حاصل کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: Planning to get a tattoo: ٹیٹو کے خواہشمند افراد کے لیے مفید مشورے
باسط کہتے ہیں کہ ٹیٹو ہٹوانے میں ان نوجوانوں کی بھی خاصی تعداد ہے جو کی پولیس یا آرمی میں بھرتی ہونے کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ بھرتی کے دوران جسم پر کسی بھی نشان کی وجہ سے انہیں مسترد کیا جا سکتا ہے۔ وہیں ان بزرگوں کی بھی کم تعداد نہیں ہے جو اپنے ہاتھ یا بازو پر لکھے نام، چاند کی تصویر یا 786 مٹوانے کے لیے آتے ہیں۔