پلوامہ (شبیر بٹ) : عید الاضحی یا عید قربان پورے عالم اسلام میں ہر سال ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تزک واحتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے، جس میں مسلمان قربانی کر کے سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوکر اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ عید قربان کے فضائل ومسائل کے لیے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے معروف عالم دین قاضی و مفتی فاروق احمد بلالی سے خصوصی بات چیت کی۔ خصوصی گفتگو کے دوران قاضی فاروق ترال نے دین اسلام کے شعار، جسے شریعت مطہرہ نے صاحب استطاعت عاقل و بالغ مسلمان پر واجب قرار دیا ہے، یعنی قربانی اور قربانی کے جانور کے متعلق مختلف مسائل پر روشنی ڈالی۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران قاضی فاروق نے بتایا کہ اسلام میں قربانی کی بڑی فضیلت آئی اور کتب احادیث اس سے بھری پڑی ہیں۔ انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے حدیث مبارک کا حوالہ دیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قربانی تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس (یعنی قربانی کے جانور) کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔
کون کون سے جانوروں کی قربانی جائز ہے
قاضی فاروق نے بتایا کہ شریعت میں چار قسم کے جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے جن میں اونٹ، گاے، بھیڑ، بکری قابل ذکر ہیں البتہ فقہائے کرام نے بھینس اور متذکرہ جانوروں کے خصائل رکھنے والے جانوروں کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے۔
قربانی کے جانوروں کی عمر
اونٹ پانچ سال کا مکمل ہونا چاہیے جبکہ گاے یا بیل دو سال، بکری اور بھیڑ ایک سال کا ہونا چاہیے، تاہم احادیث کی رو سے بھیڑ اگر چھ ماہ کا مکمل ہو گیا ہو اور ایک سال کی عمر بھیڑ کے مشابہ نظر آرہا ہو تو اسکی قربانی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ قربانی کا جانور ظاہری عیوب سے پاک ہونا چاہیے۔ قاضی فاروق احمد بلالی نے مزید بتایا کہ خصی اور بانجھ جانوروں کی قربانی بھی جائز ہے بلکہ افضل ہے۔
کیا قربانی کے لیے نیت ضروری ہے؟
نیت کے حوالہ سے قاضی فروق نے بتایا کہ قربانی کرتے وقت نیت کے الفاظ دہرانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نیت تو دل کے ارادے کا نام ہے اور قربانی کا جانور خریدنے کے وقت ہی انسان قربانی کا ارادہ کرتا ہے
قربانی کے فضلات کا حکم
قاضی فاروق نے قربانی کے جانوروں کی کھال اور دیگر فضلات کو کھیت کھلیانوں یا سڑکوں پر نہ پھینکنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اس کو مناسب طریقے سے دفن کیا جائے کیونکہ کھال کو ایسے ہی کھلے میں چھوڑ دینے سے کتوں کے جھنڈ وہاں بسیرا ڈالتے ہیں جو بسا اوقات انسان کو زخمی یا ہلاک کرتے ہیں تو لہٰذا ایسی حرکتوں سے اجتناب لازمی ہے کیونکہ قربانی کے نام پر کسی انسان کو تکلیف دینا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔
کیا وکالتاً قربانی جائز ہے جسکا سلسلہ مدارس میں شروع ہوا ہے؟
اصلاًتو قربانی گھر پر ہی کرنی ہے اور بہتر بھی یہی ہے تاہم اگر کوئی شخص معقول شرعی عذر کی بنا پر گھر میں قربانی نہیں کر سکتا ہے تو وہ وکالتاً قربانی کرا سکتا ہے شریعت میں اسکی گنجائش موجود ہے۔
فوت ہوے افراد کی جانب سے قربانی کا حکم
قاضی فاروق نے بتایا کہ فوت ہوئے افراد کی جانب سے نفلی قربانی کی جا سکتی ہے اور یہ شریعت میں جائز ہے تاہم اگر کسی فوت شدہ شخص نے قربانی کی وصیت کی ہوگی تو اس صورت میں قربانی کرنا واجب ہے اور اسکا گوشت صرف فقراء کو دیا جائے۔
قربانی کے فضائل پر چند احادیث
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لئے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں، الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔‘‘ (طبرانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ پہلا قطرۂ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: