جنیوا: ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعے کے روز جنیوا میں اپنے فرانسیسی، جرمن اور برطانوی ہم منصبوں کے علاوہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کجا کالس سے ملاقات کی۔
یورپی سفارت کاروں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی بات چیت میں اسرائیل کی جانب سے جلد حملے بند کرنے کے کم امکانات کے باوجود مذاکرات کے لیے تہران کی تیاری کو جانچنے کی کوشش کی گئی۔

تمام فریقین نے ایران کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا، لیکن عباس عراقچی نے ایران پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرنے میں یورپی ممالک کی ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ماننا ہے کہ جنگ روکنے میں یوروپی یونین ناکام ثابت ہوگا۔
ایران کے وزیر خارجہ اور اعلیٰ یورپی سفارت کاروں کے درمیان جمعہ کو ہونے والی ملاقات میں مزید بات چیت کی امید تو پیدا ہوئی لیکن فوری طور پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
تنازع کے آغاز کے بعد مغربی اور ایرانی حکام کے درمیان یہ پہلی آمنے سامنے ملاقات تھی۔
مذاکرات ختم ہونے کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ تحریری بیان میں، تینوں یورپی ممالک اور یورپی یونین نے کہا کہ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے مذاکراتی حل کی راہوں پر تبادلہ خیال کیا۔ یورپی یونین نے ایران کے جوہری پروگرام کی توسیع کے بارے میں اپنے خدشات کو دہرایا، اور مزید کہا کہ اس کا کوئی قابل اعتبار سویلین مقصد نہیں ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ جوہان وڈیفول نے کہا کہ، آج اچھا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم اس تاثر کے ساتھ کمرے سے باہر نکلے کہ ایرانی فریق بنیادی طور پر تمام اہم مسائل پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ، دونوں فریقوں نے انتہائی سنجیدہ بات چیت کی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ، ہم ایران کے ساتھ جاری بات چیت اور مذاکرات کو جاری رکھنے کے خواہشمند ہیں، اور ہم ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی بات چیت جاری رکھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، ہم واضح تھے، ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔
ایک الگ بیان میں لیمی نے زور دے کر کہا کہ یورپ اور امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو روک دے۔ انہوں نے کہا کہ، ایران کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے، لیکن صفر افزودگی نقطہ آغاز ہے۔
لیمی نے برطانوی میڈیا آؤٹ لیٹس کو بتایا کہ دو ہفتوں کے اندر ہم ایک سفارتی حل دیکھ سکتے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی مذاکرات ختم ہونے کے بعد اجلاس کے مقام کے باہر صحافیوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے تین یورپی ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی حمایت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایران میں جوہری تنصیبات کے خلاف اسرائیل کے حملوں کی بھی مذمت کی اور یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیلی حملوں کی مذمت نہیں کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جمعہ کے روز قبل ازیں امریکی موقف کے ساتھ ایک واضح صف بندی کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں مکمل طور پر مکمل مذاکرات کی طرف واپسی کو ترجیح دینی چاہیے جس میں جوہری پروگرام شامل ہے تاکہ صفر افزودگی کی طرف جا سکے۔"
امریکہ اور ایران کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر ہونے والی بات چیت میں افزودگی کا اہم نکتہ رہا ہے۔ امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف نے ایک موقع پر تجویز پیش کی کہ ایران یورینیم کو 3.67 فیصد تک افزودہ کر سکتا ہے، پھر بعد میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایران کو اپنی سرزمین پر تمام افزودگی روک دینی چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی یہ پوزیشن سخت ہوتی چلی گئی ہے۔ تہران نے یورینیم کی افزودگی کو ترک کرنے کو مسترد کر دیا۔
فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے کہا کہ فوجی کارروائیاں ایران کے جوہری پروگرام کو سست کر سکتی ہیں لیکن وہ اسے ختم نہیں کر سکتے۔
انھوں نے کہا، "ہم اچھی طرح جانتے ہیں -- افغانستان، عراق، لیبیا میں جو کچھ ہوا اسے دیکھنے کے بعد -- باہر سے حکومت کی تبدیلی کو مسلط کرنا کتنا بڑا فریب اور خطرناک ہے۔"
بیروٹ نے یہ بھی کہا کہ یورپی ممالک نے ایرانی وزیر کو دعوت دی کہ وہ حملوں کے خاتمے کا انتظار کیے بغیر امریکہ سمیت تمام فریقوں کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ ایران کے ساتھ بات چیت میں وزیر خارجہ عراقچی نے تمام معاملات کو میز پر رکھنے پر اتفاق کیا جن میں کچھ ایسے بھی تھے جو پہلے موجود نہیں تھے اور بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ، ہم نے اتفاق کیا کہ ہم جوہری بلکہ وسیع تر مسائل پر بھی بات کریں گے، اور بات چیت کو کھلا رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: