مراکش میں رواں سال عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی سرکاری طور پر منسوخ کرنے کر دی گئی ہے۔ ملک میں ایک طبقہ اس حکم کا خیر مقدم کر رہا ہے کیونکہ وہ قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے اثر سے محفوظ رہے گا۔ دوسری جانب، قربانی کی استطاعت رکھنے والے طبقے میں اس حوالے سے اس حکم کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھاے جارہے ہیں۔۔۔ واضح رہے کہ ملک کے فرماں روا شاہ محمد السادس پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ عوام کی طرف سے قربانی کریں گے۔
ان حالات میں بعض شہری خفیہ طور پر قربانی کا سہارا لے سکتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔ سابق فرماں روا شاہ حسن الثانی کے دور میں ماحولیاتی اور اقتصادی وجوہات کے سبب بعض مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی کو منسوخ کیا گیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے بیان میں مراکش کے شہر الدار البیضاء میں وکیلوں کی انجمن کے ایڈوکیٹ پروفیسر خالد الدان نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی فوجداری سزا کے لیے قانونی متن کا موجود ہونا نا گزیر ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ فوجداری قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ متن کے بغیر کوئی جرم اور کوئی سزا نہیں ہوتی۔
پروفیسر خالد نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ فرمان ایک عمومی سمت کو واضح کرنے کے لیے آیا ہے جو مراکش کی عوامی پالیسیوں کے تعین میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اسے ایک طرح سے رہنمائی، مشورہ اور ہدایت سمجھا جا سکتا ہے جس کا مقصد ملک کو کسی بھی پریشانی سے بچانا اور دشواریوں کو کم کرنا ہے۔
شرعی فریضہ کیا ہے؟
اس سے قبل 1963، 1981 اور 1996 میں غیر معمولی اقتصادی اور ماحولیاتی حالات کے سبب مراکش میں شاہی حکومت کے ذریعے عید الاضحٰی پر جانوروں کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوے مراکش کے علمی کونسل کے سربراہ لحسن سکنفل نے واضح کیا کہ حکمرانوں کی اطاعت فرض ہے۔ ان کے مطابق شاہ محمد السادس کے فیصلے کی شرعی بنیاد ہے جس کا مقصد تکلیف کو کم کرنا اور نقصان کو دور کرنا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ، تکلیف کو دور کرنا اس بات سے مربوط ہے کہ زیادہ تر عوام انتہائی مہنگی قیمتوں کے سبب قربانی کے جانور نہیں خرید سکتے، جہاں تک نقصان دور کرنے کا تعلق ہے تو وہ مویشیوں کا تحفظ ہے جن کی افزائش کئی سال کی مسلسل خشک سالی اور بد انتظامی کے سبب نقصان سے دوچار ہے۔ انھوں نے جانوروں کی قربانی نہ کرنے کے فیصلے کی پاسداری کی ضرورت کی پاسداری کو ضروری قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: