استنبول، ترکی: مغربی کنارے میں اسرائیلی فائرنگ میں جاں بحق ہونے والے ایک ترک نژاد امریکی کارکن کو ہفتے کے روز ترکی میں اس کے آبائی شہر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ سڑکوں پر ہزاروں لوگوں نے اسرائیل کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کیا۔
سیئٹل سے تعلق رکھنے والی ایک 26 سالہ خاتون عائشہ ازینگے کو 6 ستمبر کو ایک اسرائیلی فوجی نے مقبوضہ مغربی کنارے کی یہودی بستیوں کے خلاف مظاہرے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ جانکاری ایک اسرائیلی مظاہرین نے دی جس نے فائرنگ کا واقعہ دیکھا تھا۔
بحیرہ ایجیئن پر واقع ترکی کے ساحلی قصبے دیدیم میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر کھڑے تھے جہاں عائشہ ازینگے کو ترک پرچم میں لپٹے تابوت میں دفن کیا گیا۔ عائشہ ازینگے کو اس کے خاندانی گھر سے قبرستان لے جایا گیا۔ اس کے گریجویشن گاؤن پہنے ہوئے ایک پورٹریٹ کو تابوت کے سامنے رکھا گیا تھا۔
عائشہ کی لاش کو پہلے اسپتال سے اس کے خاندانی گھر اور دیدم کی مرکزی مسجد لایا گیا تھا۔
ترکی نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس کی موت کی خود تحقیقات کرے گا۔ ترکی کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نعمان قرطلمس نے جنازے کے موقع پر سوگواروں سے کہا کہ "ہم اپنی بیٹی کا خون زمین پر نہیں چھوڑیں گے اور ہم اس قتل کی ذمہ داری اور احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
جمعہ کو ازمیر فرانزک میڈیسن انسٹی ٹیوٹ میں عائشہ ازینگے کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ قرطلمس نے کہا کہ معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ ازینگے کو ایک گولی ماری گئی تھی جو اس کے بائیں کان کے نیچے سر کے پچھلے حصے میں لگی۔
اسرائیلی فوج نے منگل کو کہا کہ ازینگے کو ممکنہ طور پر اسرائیلی فورسز نے "بالواسطہ اور غیر ارادی طور پر" گولی مار دی تھی۔
اس کی موت کی امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مذمت کی ہے۔
جمعرات کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ترک نژاد امریکی کارکن کے والد نے ترکی کی جانب سے ان کی موت کی آزادانہ تحقیقات شروع کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور امریکہ سے بھی ایسا ہی کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: