خان یونس، غزہ کی پٹی: اسرائیل کی طرف سے پابندی کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 60 دنوں سے کسی طرح کی خوراک، ایندھن، دوائی یا کوئی دوسری چیز داخل نہیں ہوئی۔ امدادی گروپوں کے پاس بھوکے فلسطینیوں میں تقسیم کے لیے خوراک ختم ہو رہی ہے۔ بازار میں تقریباً ضروری اشیاء ختم ہو چکی ہیں۔ فلسطینی خاندان اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔

جنوبی شہر خان یونس کے باہر پھیلے ہوئے خیمہ کیمپ میں، مریم النجر اور اس کی ساس نے ایک برتن میں مٹر اور گاجر کے چار ڈبے خالی کیے اور اسے لکڑی کی آگ پر ابالا۔ انہوں نے تھوڑا سا بلون اور مصالحہ شامل کیا۔
یہ، چاول کی ایک پلیٹ چھ بچوں سمیت، ان کے خاندان کے 11 افراد کے لیے جمعے کا واحد کھانا تھا۔
النجر نے کہا کہ فلسطینیوں کے درمیان، جمعہ مقدس ہے، اس ایک دن بڑے خاندان میں گوشت، بھری ہوئی سبزیاں یا دیگر بھرپور روایتی پکوان پکائے جاتے ہیں۔ لیکن اب ہم مٹر اور چاول کھاتے ہیں۔ النجر نے مزید کہا کہ، ہم نے جنگ سے پہلے کبھی ڈبے کے مٹر نہیں کھائے تھے۔ صرف اس جنگ میں جس نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔

غزہ میں تقریباً 2.3 ملین فلسطینی اب بنیادی طور پر ڈبہ بند سبزیاں، چاول، پاستا اور دال پر گزارہ کر رہے ہیں۔ گوشت، دودھ، پنیر اور پھل غزہ کے بازاروں سے غائب ہو چکے ہیں۔ روٹی اور انڈے اب یہاں نایاب ہیں۔ بازار میں چند سبزیاں یا دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، جو زیادہ تر کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔
النجر نے کہا کہ، فی الحال ہمیں ایسی کوئی چیز میسر نہیں جس سے پروٹین غذائی اجزاء حاصل ہوتے ہیں۔

سب کچھ ختم ہو جائے گا تو شاید ہم ریت کھائیں گے:
اسرائیل نے غزہ میں دو مارچ کو دوبارہ ناکہ بندی نافذ کی، پھر 18 مارچ کو دوبارہ فوجی آپریشن شروع کر کے دو ماہ کی جنگ بندی کو توڑ دیا۔ نتن یاہو حکومت نے کہا کہ دونوں اقدامات کا مقصد یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ اسرائیل کی اس ناکہ بندی کو "بھوک سے مارنے حربہ قرار دے رہے ہیں جو پوری آبادی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور ایک ممکنہ جنگی جرم ہے۔
غزہ میں جب گوشت دستیاب نہ ہوا تو ڈبے میں بند سارڈینز مل گئیں۔ وہ ختم ہو گیا تو اقوام متحدہ سے دودھ کے کارٹن ملنے لگے، جو ہفتے پہلے ختم ہو گئے۔

غزہ کے ایک شہری نے کہا، اب وہ پھلیاں یا مٹر اور گاجر کے ڈبے کھانے کے معمول پر ہیں۔ جب انہیں وہ نہیں ملتا تو وہ خیراتی باورچی خانے سے دال یا پاستا حاصل کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر اسے روٹی یا چینی مل جائے تو وہ اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے چائے میں ڈبو کر روٹی دیتی ہے۔
مریم کی ساس سمایا النجر نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرے پوتے بھوک سے مر جائیں گے۔ 61 سالہ خاتون نے کہا کہ اسے اور اس کے شوہر کو کینسر ہے۔ اس نے اپنی دوائی لینا بند کر دی ہے کیونکہ یہ ناقابل حصول ہے، اور اس کا شوہر اسپتال میں زیر علاج ہے۔
مریم کا کہنا ہے جب غزہ میں سب کچھ ختم ہو جائے گا تو شاید ہم ریت کھائیں گے۔

غذائی قلت بچوں کو ختم کر رہی ہے:
ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ بچوں کی خوراک میں ورائٹی، پروٹین اور دیگر غذائی اجزاء کی کمی ان کی صحت کو طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔
خان یونس ناصر اسپتال میں علاج معالجے کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن ابو طیر نے کہا کہ غذائی قلت کے کیسز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے خصوصی دودھ ختم ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس نے مارچ میں شدید غذائی قلت کا شکار 3,700 بچوں کی نشاندہی کی، جو فروری کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے۔
ڈاکٹر ایمن ابو طیر کے مطابق، بچوں کو ان کی نشوونما کے لیے خوراک کے اہرام کی ضرورت ہوتی ہے، گوشت، انڈے، مچھلی اور دودھ ان کی نشوونما کے لیے، پھل اور سبزیاں ان کے مدافعتی نظام کی تعمیر کے لیے۔ جو اب غزہ میں موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1 سال کے بچے کو جس کا وزن 10 کلو (22 پاؤنڈ) ہے اسے روزانہ تقریباً 700 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔
النجر کے جمعہ کے کھانے میں مٹر اور گاجر کے چار ڈبوں میں تقریباً 1,000 کیلوریز تھے ( ڈبے کے لیبل کی معلومات کے مطابق )، ان چاولوں کو شمار نہیں کرتے جو انہوں نے کھائے تھے یعنی 11 افراد میں یہ کیلوریز تقسیم ہوئے، جن میں 6 سے 14 سال کی عمر کے چھ بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے پہلے کہا ہے کہ جنگ بندی کے دوران تقسیم میں اضافے کے بعد غزہ کے پاس کافی امداد موجود ہے جس کی اقوام متحدہ نے تردید کی ہے۔

بازار میں سامان کم اور قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں:
خان یونس کی ایک گلی کے بازار میں حالیہ دنوں میں زیادہ تر سٹال خالی ہو گئے ہیں۔ ان کھلی جگہوں پر ٹماٹر، کھیرے، کٹے ہوئے بینگن اور پیاز کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ چند کام کرنے والے گروسری اسٹورز میں سے ایک پر، پاستا کے تھیلوں کے علاوہ شیلفیں خالی تھیں۔
ٹماٹر 50 شیکل فی کلو یعنی تقریباً 14 ڈالر میں فروخت ہو رہے ہیں، جو جنگ سے پہلے ایک ڈالر سے بھی کم تھے۔
ایک فلسطینی خلیل الفقاوی نے خالی اسٹال کے سامنے کھڑے ہو کر کہا، میں ٹماٹر کھانے کا خواب دیکھتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اس کے خاندان میں کھانا کھلانے کے لیے نو افراد ہیں۔ بچے گوشت، چکن، کوکی مانگتے ہیں۔ ہم یہ فراہم نہیں کر سکتے۔
اب غزہ میں صرف وہی سبزیاں ہیں جو غزہ میں اگائی جاتی ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے علاقے کے زیادہ تر کھیتوں اور گرین ہاؤسز کو تباہ کر دیا ہے یا انہیں فوجی علاقوں میں بند کر دیا ہے جہاں جانا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔

محمود الشعر نے کہا کہ ان کے گرین ہاؤسز سے ایک ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 150 کلو (330 پاؤنڈ) ٹماٹر حاصل ہوتے ہیں جو جنگ سے پہلے 600 کلو (1,300 پاؤنڈ) تھے۔ ان کے مطابق دو ہفتوں یا ایک مہینے بعد یہ بھی ختم ہو جائے گا۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ پر حملے شروع کیے ۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی جارحیت میں اب تک 51,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ لاکھوں لوگ خیموں کے کیمپوں میں رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: