حیدرآباد (نیوز ڈیسک): حالیہ برسوں میں نوعمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین میں خودکشی کی شرح تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں سالانہ 700000 سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں۔ 10 ستمبر کو خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد خودکشی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے اور نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہے۔
یوم انسداد خودکشی کی تھیم
اس سال کی تھیم "خودکشی پر بیانیہ کو تبدیل کرنا" ہے اور "گفتگو شروع کرنے" پر زور دینا ہے۔ یہ تھیم خودکشی کے بارے میں کھلے عام گفتگو کرنے، خاموشی کی دیواروں کو توڑنے اور لوگوں کی تنقید کی فکر کیے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ خودکشی کے بارے میں بات چیت مشکل ہو سکتی ہے، پھر بھی وہ اہم اور ضروری ہے۔ بات چیت کے ذریعے انتہائی قدم اٹھانے سے روکنے اور جان بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس دن کا تاریخی پس منظر
عالمی یوم انسداد خودکشی 2003 میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تعاون سے خودکشی کی روک تھام کے لیے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریونشن (IVSP) نے شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر سال 10 ستمبر کو اس مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کی جائے، اس سے متعلق بدنامی کو کم کیا جائے، تنظیموں، حکومتوں اور عوام کے درمیان بیداری پیدا کی جائے، یہ پیغام دیا جائے کہ ایسا رجحان رکھنے والے لوگوں کو خودکشی سے روکا جا سکتا ہے۔
خودکشی سے متعلق اہم حقائق
1- ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 720 000 سے زیادہ لوگ خودکشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
2- پندرہ سے انتیس سال کی عمر کے لوگوں میں موت کی تیسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔
3- خودکشی کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں جو سماجی، مالیاتی۔ ثقافتی، حیاتیاتی، نفسیاتی اور ماحولیاتی عوامل سے متاثر ہوتی ہیں۔
4- دنیا بھر میں خودکشی کے 73 فیصد واقعات کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں۔
5- خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ بسا اوقات کئی بار خودکشی کی کوشش کرتے ہیں لیکن اکثر پہلی کوشش سب سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔
بھارت میں خودکشی کے واقعات
1- دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات بھارت میں پیش آتے ہیں۔
2- نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں بھارت میں 1.71 لاکھ افراد خودکشی سے ہلاک ہوئے۔
سب سے زیادہ خودکشی والی ریاستیں
این سی آر بی کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، خوبصورت ہمالیائی ریاست سکم میں غیر طبعی اموات میں خودکشی کی شرح 43.1 فیصد ہے اور یہاں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس کے بعد انڈمان اور نکوبار جزائر میں 42.8 فیصد، پڈوچیری میں 29.7 فیصد، کیرالہ میں 28.5 فیصد اور چھتیس گڑھ میں 28.2 فیصد خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ قومی اوسط 12.4 فیصد ہے۔ 2022 میں کل 1,70,924 خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں۔ سال 2022 کے دوران بھارت میں تقریباً 100,000 افراد نے خودکشی کر کے اپنی زندگیاں ختم کر لیں، جو اب تک ملک میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ شرح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صحت عامہ کے در پیش مسائل میں سب سے بڑا بحران خودکشی: ماہرین
خودکشی کے اسباب و عوامل
خودکشی کی بنیادی وجوہات میں سماجی مسائل، مالیاتی بحران اور ذہنی دباؤ قابل ذکر ہیں۔ بیشتر واقعات میں مایوسی، جدائی ، تنہائی، بے روزگاری، ناکامی، خاندانی جھگڑے، مسلسل بیماری/تکلیف، عوامی تذلیل/شرم، انتہائی خوف، حد سے زیادہ شراب نوشی یا منشیات کے استعمال کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے کہ جب انسان کسی بات کو دماغ پر بہت زیادہ حاوی کر لیتا ہے یا پھر مایوس کن حالات اور متعدد پریشانیوں کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص اکثر خود کو تکلیف دینے پر مائل نظر آتا ہے یا بات بات پر مشتعل ہوجاتا ہے، بغیر کسی بڑی وجہ کے چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے یا اچانک ہنسنے یا رونے لگتا ہے۔ اگر یہ علامات کسی بھی شخص میں نظر آئیں تو گھر کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ ذرہ بھی لاپرواہی نہ کریں کیوں کہ یہ علامات خودکشی کی جانب پہلا اسٹیج مانی جاتی ہیں۔ اگر کسی شخص کے رویے میں اچانک بڑا بدلاؤ نظر آئے تو اس کے متعلقین اور سرپرستوں کو فوراً الرٹ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: پچھلے دس سالوں میں 400 سے زائد فوجی جوانوں کی خودکشی
خودکشی کے روک تھام میں اسلام کا کردار
خودکشی کی کوشش کرنے والوں کے معاملے میں اکثر مایوسی اور بہت زیادہ ذہنی دباؤ سب سے بڑا فیکٹر ہوتا ہے۔ جب تمام امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی یا انسان تمام حالات کے لیے خود کو قصوروار ٹھہرا لیتا ہے تو ایسے حالات میں کچھ لوگ انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ اس کا حل صرف اور صرف امید اور بھروسے میں ہے اور اسلام میں اس تعلق سے ایک بہترین نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلے تو اسلام نے یہ نظریہ دیا کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، پھر اسی کے ساتھ ناامیدی کو کفر قرار دیتے ہوئے یہ امید پیدا کی کہ آج اگر برا وقت ہے تو کل اچھا وقت ضرور آئے گا۔ مزید یہ کہ اسلام نے خودکشی کو کسی بھی صورت حال میں مذہبی طور پر حرام اور گناہ کبیرہ قرار دے دیا۔ اسلام کے مطابق خودکشی ایک ایسا عمل ہے جس سے اس دنیا کے مسائل سے نجات ملنے کے بجائے آخرت میں ایسے شخص کو دائمی عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ماں بیٹی کی لاشیں ایک ہی پھندے سے لٹکی ہوئی ملیں، بھائی نے ایک سال قبل خودکشی کی تھی
اسلام کے اسی نظریے کا اثر ہے کہ اس ایمان و یقین کے حامل لوگوں میں بدترین اور مشکل ترین حالات میں بھی خودکشی کا خیال نہیں آتا۔ ہاں اگر کسی شخص کا ایمان و یقین متزلزل ہو جائے تو اس صورت میں ایسے واقعات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اہل اسلام کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ دنیا بھر میں خودکشی کے واقعات سب سے کم مسلمانوں کے یہاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھی اس نظریے سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس قدم اٹھا سکتی ہے۔