نئی دہلی: حکومت ہند پرانے سم کارڈز کو تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ نیشنل سائبر سیکیورٹی کوآرڈینیٹر (این سی ایس سی) اور وزارت داخلہ کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کچھ سم کارڈز چینی نژاد چپس کا استعمال کرتے ہیں، جس سے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات پیدا ہو گیے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، این سی ایس سی( NCSC) نے بڑے ٹیلی کام آپریٹرز جیسے ایرٹیل، ووڈافون آئیڈیا, ، ریلائنس جیو اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی۔ میٹنگ کا مقصد نئے سم کارڈز کی خریداری سے متعلق سیکیورٹی خدشات کو دور کرنا اور پرانے سم کارڈز کو تبدیل کرنے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا تھا۔
ہندوستان میں ایک ارب سے زیادہ موبائل صارفین ہیں۔ 4G اور 5G کے آنے کے بعد بھی ملک میں بہت سے لوگ اب بھی پرانے سم کارڈ استعمال کر رہے ہیں اور ایسے سم کارڈز میں چینی ساختہ چپس کے استعمال ہونے کا امکان ہے۔ حکام کے لیے یہ ایک بڑی سیکیورٹی تشویش ہے، ایسے وقت میں جب حکومت نے قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے چینی اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں جیسا کہ ہووائی اور زیڈ ٹی ای پر پابندی عائد کردی ہے۔
ٹرسٹڈ سورس سرٹیفیکیشن کا غلط استعمال:
رپورٹ کے مطابق کچھ سم کارڈ بیچنے والوں نے 'ٹرسٹڈ سورس سرٹیفیکیشن' کا غلط استعمال کیا ہے۔ ابتدائی طور پر، فروخت کنندگان نے قابل اعتماد ذرائع سے سم کارڈ چپس خریدنے کا دعویٰ کر کے سرٹیفیکیشن حاصل کیا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ چپس چین میں تیار کی گئی تھیں۔
ٹیلی کام کمپنیاں تیسرے فریق کے ذریعے سم کارڈ خریدتی ہیں، جو ویتنام اور تائیوان جیسے ممالک سے چپس درآمد کرتی ہیں۔ اس کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں کو سپلائی کرنے سے پہلے انہیں اسمبل، پیک اور ہندوستان میں سیریلائز کیا جاتا ہے۔
یونیفائیڈ ایکسیس سروس لائسنس میں تبدیلیاں:
ٹیلی کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے 2021 میں یونیفائیڈ ایکسیس سروس لائسنس (یو اے ایس ایل) میں تبدیلیاں کی تھیں، جس کے مطابق ٹیلی کام کمپنیاں کسی بھی غیر بھروسہ مند وینڈر سے سم اور دیگر آلات نہیں خرید سکتیں۔ این سی ایس سی صرف بھروسہ مند سپلائرز کو منظور کرتا ہے، لیکن کچھ سپلائرز نے اس کا غلط استعمال کیا اور چین میں تیار کردہ چپس فراہم کیں، یعنی ان میں چین کے اجزاء شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: