ETV Bharat / bharat

جج کے گھر سے جلی ہوئی نوٹوں کی برآمدگی پر اب تک ایف آئی آر کیوں نہیں ہوئی، دھنکھر کا سوال - DHANKHAR ON BURNT CASH DISCOVERY

نائب صدر جمہوریہ دھنکھر نے کہا کہ جج کے گھر میں نقدی ملنے پر ایف آئی آر نہ ہونا ناقابل وضاحت ہے۔

نائب صدر جمہوریہ جگدیپ سنگھ دھنکھر
نائب صدر جمہوریہ جگدیپ سنگھ دھنکھر (Photo: ANI)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : April 17, 2025 at 6:48 PM IST

4 Min Read

نئی دہلی: نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھر نے جمعرات کو ہائی کورٹ کے ایک جج کی رہائش گاہ سے جلی ہوئی نوٹوں کی برآمدگی معاملے میں ایف آئی آر نہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے عدلیہ پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ "قانون سے بالاتر زمرے (ججوں)" نے قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 14 مارچ کو آتشزدگی کے بعد جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ سے آدھی جلے ہوئی نوٹوں کی برآمدگی کی داخلی جانچ کا حکم دیا۔ جسٹس ورما کو اب دہلی ہائی کورٹ سے الہ آباد بھیج دیا گیا ہے۔

دھنکھر نے اس معاملے کی داخلی جانچ کرنے والے تین ججوں کے پینل کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔ اس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر ہر ہندوستانی عوام کو گہری تشویش ہے۔

"اگر یہ واقعہ کسی عام آدمی کے گھر پر ہوا ہوتا تو کارروائی کی رفتار راکٹ کی طرح ہوتی۔ انہوں نے وی وی آئی پی طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ''اب یہ مویشیوں سے لدی گاڑی نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ معاملے کی جانچ کے لیے قائم کی گئی تین ججوں کی کمیٹی آئین یا قانون کی کسی شق کے تحت نہیں آتی ہے۔ "اور کمیٹی کیا کر سکتی ہے؟ کمیٹی زیادہ سے زیادہ سفارش کر سکتی ہے؟ سفارش کس سے؟ اور کس کے لیے؟"

انہوں نے کہا کہ ’’ججوں کے لیے ہمارے پاس جس طرح کا میکانزم ہے، بالآخر صرف وہی ایکشن لیا جا سکتا ہے یعنی پارلیمنٹ سے جج کو ہٹانے کا طریقہ)‘‘۔ دھنکھر نے کہا کہ اس معاملے میں "فطری طور پر قانونی حیثیت کا فقدان ہے"۔

متعلقہ خبر: دہلی ہائی کورٹ کے جج کے بنگلے میں لگی آگ، آگ بجھانے والے عملہ کو ملا نوٹوں کے بنڈلوں کا ذخیرہ

"اب ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب ان (جج) کی الماری میں چایے کیڑے کا ڈبہ ہو یا انسانی باقیات، اس کا دروازہ کھولنے کا وقت ہے۔ اس الماری کو ختم کرنے کا وقت ہے، کیڑے اور باقیات کو پبلک ڈومین میں آنے دیں تاکہ صفائی ہو سکے۔"

انہوں نے کہا کہ سات دن تک کسی کو اس واقعہ کا علم تک نہیں ہوا۔ "ہمیں اپنے آپ سے سوالات پوچھنے ہوں گے۔ کیا تاخیر قابل وضاحت ہے؟ یا قابل مذمت ہے؟ کیا اس سے کچھ بنیادی سوالات پیدا نہیں ہوتے؟ کسی بھی عام صورت حال میں چیزیں اس سے بالکل مختلف ہوتیں۔"

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے واقعہ کی تصدیق کے بعد یہ پوری طرح واضح ہو گیا کہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، "قوم اب تک انتظار کر رہی ہے۔ قوم بے چین ہے کیونکہ ہمارے ایک ادارے کو جسے لوگ ہمیشہ عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔"

قانون کی حکمرانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں انصاف کے نظام کی شفافیت اس کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تفتیش قانونی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ورما کے گھر سے جلی ہوئی نوٹوں کے 4-5 ڈھیر برآمد! ویڈیو اور فوٹوز کے ساتھ جانچ رپورٹ جاری

انہوں نے کہا کہ "یہ ملک کا قانون ہے کہ ہر قابل شناخت جرم کی اطلاع پولیس کو دینا ضروری ہے۔ اور ایسا کرنے میں ناکامی بھی ایک جرم ہے۔ لہذا، آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ ایف آئی آر کیوں نہیں ہوئی۔"

دھنکھر نے نشاندہی کی کہ ایف آئی آر کسی کے خلاف بھی درج کی جا سکتی ہے، نائب صدر سمیت کسی بھی قانون سازوں کے خلاف بھی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئین نے صرف صدر جمہوریہ اور گورنروں کو قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ دیا ہے۔ "تو پھر قانون سے ماورا زمرے (ججوں) نے یہ استثنیٰ کب اور کیسے حاصل کر لیا؟" انہوں نے تعجب کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: نالے میں بہہ رہے تھے 500 روپے کے بہت سارے نوٹ، ٹوٹ پڑے لوگ، بھیڑ نے لاکھوں روپے لوٹے

نئی دہلی: نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھر نے جمعرات کو ہائی کورٹ کے ایک جج کی رہائش گاہ سے جلی ہوئی نوٹوں کی برآمدگی معاملے میں ایف آئی آر نہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے عدلیہ پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ "قانون سے بالاتر زمرے (ججوں)" نے قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 14 مارچ کو آتشزدگی کے بعد جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ سے آدھی جلے ہوئی نوٹوں کی برآمدگی کی داخلی جانچ کا حکم دیا۔ جسٹس ورما کو اب دہلی ہائی کورٹ سے الہ آباد بھیج دیا گیا ہے۔

دھنکھر نے اس معاملے کی داخلی جانچ کرنے والے تین ججوں کے پینل کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔ اس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر ہر ہندوستانی عوام کو گہری تشویش ہے۔

"اگر یہ واقعہ کسی عام آدمی کے گھر پر ہوا ہوتا تو کارروائی کی رفتار راکٹ کی طرح ہوتی۔ انہوں نے وی وی آئی پی طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ''اب یہ مویشیوں سے لدی گاڑی نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ معاملے کی جانچ کے لیے قائم کی گئی تین ججوں کی کمیٹی آئین یا قانون کی کسی شق کے تحت نہیں آتی ہے۔ "اور کمیٹی کیا کر سکتی ہے؟ کمیٹی زیادہ سے زیادہ سفارش کر سکتی ہے؟ سفارش کس سے؟ اور کس کے لیے؟"

انہوں نے کہا کہ ’’ججوں کے لیے ہمارے پاس جس طرح کا میکانزم ہے، بالآخر صرف وہی ایکشن لیا جا سکتا ہے یعنی پارلیمنٹ سے جج کو ہٹانے کا طریقہ)‘‘۔ دھنکھر نے کہا کہ اس معاملے میں "فطری طور پر قانونی حیثیت کا فقدان ہے"۔

متعلقہ خبر: دہلی ہائی کورٹ کے جج کے بنگلے میں لگی آگ، آگ بجھانے والے عملہ کو ملا نوٹوں کے بنڈلوں کا ذخیرہ

"اب ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب ان (جج) کی الماری میں چایے کیڑے کا ڈبہ ہو یا انسانی باقیات، اس کا دروازہ کھولنے کا وقت ہے۔ اس الماری کو ختم کرنے کا وقت ہے، کیڑے اور باقیات کو پبلک ڈومین میں آنے دیں تاکہ صفائی ہو سکے۔"

انہوں نے کہا کہ سات دن تک کسی کو اس واقعہ کا علم تک نہیں ہوا۔ "ہمیں اپنے آپ سے سوالات پوچھنے ہوں گے۔ کیا تاخیر قابل وضاحت ہے؟ یا قابل مذمت ہے؟ کیا اس سے کچھ بنیادی سوالات پیدا نہیں ہوتے؟ کسی بھی عام صورت حال میں چیزیں اس سے بالکل مختلف ہوتیں۔"

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے واقعہ کی تصدیق کے بعد یہ پوری طرح واضح ہو گیا کہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، "قوم اب تک انتظار کر رہی ہے۔ قوم بے چین ہے کیونکہ ہمارے ایک ادارے کو جسے لوگ ہمیشہ عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔"

قانون کی حکمرانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں انصاف کے نظام کی شفافیت اس کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تفتیش قانونی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ورما کے گھر سے جلی ہوئی نوٹوں کے 4-5 ڈھیر برآمد! ویڈیو اور فوٹوز کے ساتھ جانچ رپورٹ جاری

انہوں نے کہا کہ "یہ ملک کا قانون ہے کہ ہر قابل شناخت جرم کی اطلاع پولیس کو دینا ضروری ہے۔ اور ایسا کرنے میں ناکامی بھی ایک جرم ہے۔ لہذا، آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ ایف آئی آر کیوں نہیں ہوئی۔"

دھنکھر نے نشاندہی کی کہ ایف آئی آر کسی کے خلاف بھی درج کی جا سکتی ہے، نائب صدر سمیت کسی بھی قانون سازوں کے خلاف بھی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئین نے صرف صدر جمہوریہ اور گورنروں کو قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ دیا ہے۔ "تو پھر قانون سے ماورا زمرے (ججوں) نے یہ استثنیٰ کب اور کیسے حاصل کر لیا؟" انہوں نے تعجب کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: نالے میں بہہ رہے تھے 500 روپے کے بہت سارے نوٹ، ٹوٹ پڑے لوگ، بھیڑ نے لاکھوں روپے لوٹے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.