ETV Bharat / bharat

وقف ترمیمی بل کو روکنے میں مسلم تنظیموں کی کامیابی کا امکان کتنا ہے، جانیں اعداد و شمار - WAQF AMENDMENT BILL

پارلیمنٹ کے اعداد و شمار سے سمجھیے کہ وقف ترمیمی بل کے رکنے یا پاس ہونے کا کتنا امکان ہے۔

پارلیمنٹ
پارلیمنٹ (Representative Photo: ANI)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : April 2, 2025 at 7:54 AM IST

Updated : April 2, 2025 at 8:34 AM IST

5 Min Read

حیدرآباد: آج دوپہر 12 بجے وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا ہے جس پر آٹھ گھنٹے بحث کے بعد ووٹنگ ہوگی۔ بی جے پی نے بھی اپنے تمام ارکان پارلیمنٹ کو اس بل کے حوالے سے لوک سبھا میں موجود رہنے کا وہپ جاری کر دیا ہے۔ یہ مودی حکومت کی تیسری میعاد کا سب سے اہم اور متنازع بل ہے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اس بل کو روکنے میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی حامی اور مخالف پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد اور ان کا حساب کتاب جاننا بہت ضروری ہے۔

اس بل کو روکنے یا پاس کرانے کے لیے لوک سبھا میں 272 ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔ فی الوقت لوک سبھا میں بی جے پی کی قیادت والے 'این ڈی اے' کے پاس 293 ارکان پارلیمنٹ ہیں جب کہ کانگریس کی قیادت والے 'انڈیا' اتحاد کے پاس 235 ممبران پارلیمنٹ ہیں۔

ایسے میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں کا ماننا ہے کہ اگر 16 ارکان پارلیمنٹ والی ٹی ڈی پی اور 12 ایم پیز والی جے ڈی یو وقف ترمیمی بل کی مخالفت کر دے تو اسے روکا جا سکتا ہے کیونکہ اس صورت حال میں این ڈی اے کے ارکان تعداد کم ہو کر 265 ہو جائے گی اور بل کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد 277 تک پہنچ جائے گی۔ لیکن تاحال معاملہ اس کے برعکس نظر آ رہا ہے۔ مسلم تنظیموں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو دونوں پارٹیاں ابھی تک وقف بل کی حمایت میں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے اپنے تازہ بیانوں سے بل کی حمایت کرنے کا اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وقف ترمیمی بل میں کیا ہے؟ جانیے حکومت کی منشا، اس سے ہونے والی تبدیلیاں اور مسلمانوں کے خدشات

اگر بات صرف بی جے پی کی ہو تو وہ اپنے دم پر اس بل کو پاس کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بی جے پی کے پاس کل 240 سیٹیں ہیں اور وہ اکثریت سے 32 سیٹیں دور ہے۔ ایسے میں اس بل کو پاس کرانے کے لیے اسے این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ تاحال نتیش کمار، چندرابابو نائیڈو، دیوے گوڑا، چراغ پاسوان، جیتن رام مانجھی اور جینت چودھری کی پارٹیاں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور بل کی حمایت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ان ڈی اے کی 14 اتحادی پارٹیوں کے پاس 53 ارکان پارلیمنٹ ہیں اور تاحال یہ حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

مجموعی طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کی امید جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی پر ٹکی ہوئی تھی لیکن ان پارٹیوں نے بل کی حمایت میں بیان دے کر اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔

ٹی ڈی پی کے سربراہ چندرابابو نائیڈو نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ وہ وقف بل پر مسلمانوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس بل سے وقف کے نام پر چھینی گئی لاکھوں ہیکٹر اراضی عام مسلمانوں کو واپس مل جائے گی۔

وہیں مرکزی وزیر اور جے ڈی یو لیڈر للن سنگھ نے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جے ڈی یو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو کانگریس پارٹی کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس سے کہا کہ وہ اپنی صورتحال کے بارے میں سوچے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے کتنے سال ملک اور بہار پر حکومت کی اور مسلمانوں کے لیے کیا کیا۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا وقف بل کی مخالفت کا اعلان

جے ڈی یو ذرائع کے مطابق جے ڈی یو وقف بل کی حمایت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل کا تعلق مذہب سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہ بل زمین اور جائیداد سے متعلق ہے۔ جے ڈی یو مرکزی حکومت کا حصہ ہے اور بہار میں بھی مخلوط حکومت ہے۔ اس کے علاوہ جے ڈی یو کو بہار کا اگلا اسمبلی الیکشن این ڈی اے کے ساتھ لڑنا چاہتی ہے۔ ایسے میں پارٹی حکومت کی طرف سے لائے گئے بل کے خلاف کیسے جا سکتی ہے۔

اس صورت حال میں اگر این ڈی اے کی ایک دو چھوٹی پارٹیاں اس بل کی مخالفت بھی کر دیں تب بھی اسے روکنے میں مسلم تنظیموں کو کامیابی ملنے کا امکان کم ہی نظر آ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وقف ترمیمی بل: جے پی سی میں منظور کی گئیں بھاجپا اینڈ کمپنی کی 14 ترامیم کیا ہیں؟

حیدرآباد: آج دوپہر 12 بجے وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا ہے جس پر آٹھ گھنٹے بحث کے بعد ووٹنگ ہوگی۔ بی جے پی نے بھی اپنے تمام ارکان پارلیمنٹ کو اس بل کے حوالے سے لوک سبھا میں موجود رہنے کا وہپ جاری کر دیا ہے۔ یہ مودی حکومت کی تیسری میعاد کا سب سے اہم اور متنازع بل ہے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اس بل کو روکنے میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی حامی اور مخالف پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد اور ان کا حساب کتاب جاننا بہت ضروری ہے۔

اس بل کو روکنے یا پاس کرانے کے لیے لوک سبھا میں 272 ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔ فی الوقت لوک سبھا میں بی جے پی کی قیادت والے 'این ڈی اے' کے پاس 293 ارکان پارلیمنٹ ہیں جب کہ کانگریس کی قیادت والے 'انڈیا' اتحاد کے پاس 235 ممبران پارلیمنٹ ہیں۔

ایسے میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں کا ماننا ہے کہ اگر 16 ارکان پارلیمنٹ والی ٹی ڈی پی اور 12 ایم پیز والی جے ڈی یو وقف ترمیمی بل کی مخالفت کر دے تو اسے روکا جا سکتا ہے کیونکہ اس صورت حال میں این ڈی اے کے ارکان تعداد کم ہو کر 265 ہو جائے گی اور بل کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد 277 تک پہنچ جائے گی۔ لیکن تاحال معاملہ اس کے برعکس نظر آ رہا ہے۔ مسلم تنظیموں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو دونوں پارٹیاں ابھی تک وقف بل کی حمایت میں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے اپنے تازہ بیانوں سے بل کی حمایت کرنے کا اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وقف ترمیمی بل میں کیا ہے؟ جانیے حکومت کی منشا، اس سے ہونے والی تبدیلیاں اور مسلمانوں کے خدشات

اگر بات صرف بی جے پی کی ہو تو وہ اپنے دم پر اس بل کو پاس کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بی جے پی کے پاس کل 240 سیٹیں ہیں اور وہ اکثریت سے 32 سیٹیں دور ہے۔ ایسے میں اس بل کو پاس کرانے کے لیے اسے این ڈی اے کی اتحادی پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ تاحال نتیش کمار، چندرابابو نائیڈو، دیوے گوڑا، چراغ پاسوان، جیتن رام مانجھی اور جینت چودھری کی پارٹیاں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور بل کی حمایت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ ان ڈی اے کی 14 اتحادی پارٹیوں کے پاس 53 ارکان پارلیمنٹ ہیں اور تاحال یہ حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

مجموعی طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کی امید جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی پر ٹکی ہوئی تھی لیکن ان پارٹیوں نے بل کی حمایت میں بیان دے کر اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔

ٹی ڈی پی کے سربراہ چندرابابو نائیڈو نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ وہ وقف بل پر مسلمانوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس بل سے وقف کے نام پر چھینی گئی لاکھوں ہیکٹر اراضی عام مسلمانوں کو واپس مل جائے گی۔

وہیں مرکزی وزیر اور جے ڈی یو لیڈر للن سنگھ نے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جے ڈی یو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو کانگریس پارٹی کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس سے کہا کہ وہ اپنی صورتحال کے بارے میں سوچے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے کتنے سال ملک اور بہار پر حکومت کی اور مسلمانوں کے لیے کیا کیا۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کا وقف بل کی مخالفت کا اعلان

جے ڈی یو ذرائع کے مطابق جے ڈی یو وقف بل کی حمایت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل کا تعلق مذہب سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہ بل زمین اور جائیداد سے متعلق ہے۔ جے ڈی یو مرکزی حکومت کا حصہ ہے اور بہار میں بھی مخلوط حکومت ہے۔ اس کے علاوہ جے ڈی یو کو بہار کا اگلا اسمبلی الیکشن این ڈی اے کے ساتھ لڑنا چاہتی ہے۔ ایسے میں پارٹی حکومت کی طرف سے لائے گئے بل کے خلاف کیسے جا سکتی ہے۔

اس صورت حال میں اگر این ڈی اے کی ایک دو چھوٹی پارٹیاں اس بل کی مخالفت بھی کر دیں تب بھی اسے روکنے میں مسلم تنظیموں کو کامیابی ملنے کا امکان کم ہی نظر آ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وقف ترمیمی بل: جے پی سی میں منظور کی گئیں بھاجپا اینڈ کمپنی کی 14 ترامیم کیا ہیں؟

Last Updated : April 2, 2025 at 8:34 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.