ETV Bharat / bharat

وقف ترمیمی بل مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر حملہ ہے: امیر جماعت اسلامی ہند - WAQF BILL PASSED IN PARLIAMENT

وقف بورڈ کی ساخت میں جبراً تبدیلی کرکے اراکین میں غیرمسلم افراد کو شامل کرنے کا فیصلہ مسلمانوں سے انتظامی حق چھیننے کی سازش ہے۔

وقف ترمیمی بل مذہبی آزادی پر حملہ
وقف ترمیمی بل مذہبی آزادی پر حملہ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : April 4, 2025 at 3:46 AM IST

5 Min Read

نئی دہلی، (مفیض الرحمٰن): ’’وقف ترمیمی بل 2024 کا شدید مخالفت کے باوجود لوک سبھا سے منظور کیا جانا، مذہبی ازادی اور آئینی حقوق پر کھلا حملہ ہے‘‘ امیر جماعت اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ "مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی قابل مذمت اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

آئین کی دفعہ 26 کے خلاف وقف بل

یہ بل امتیاز اور مذہبی تفریق کی بدترین مثال ہے، اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو اوقاف کا انتظام کرنے کے مذہبی و دستوری حقِ سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ دیگر مذہبی طبقات کو اپنے مذہبی مقامات کے مکمل انتظام و انصرام کا حق حاصل ہے۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وقف املاک کے انتظام میں سرکاری مداخلت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ جو کہ آئین کی دفعہ 26 کے خلاف ہے۔ جس میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے‘‘۔

دیگر مذہبی طبقات کی طرح مسلمانوں کو بھی خصوصی حقوق
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ وقف جائیدادیں مذہبی اوقاف ہیں، ریاستی اثاثہ نہیں۔ رہا یہ دعویٰ کہ ’’مسلمانوں کو وقف ایکٹ کے تحت خصوصی حقوق حاصل ہیں‘‘ سراسر غلط ہے۔ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 میں مسلمانوں کو اوقاف کے حوالے سے ویسے ہی حقوق عطا کیے گئے تھے جیسے دیگر قوانین کے تحت دیگر مذہبی طبقات کو دیے گئے ہیں۔

ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین

پارلیمانی بحث کے دوران پیش کیے گئے گمراہ کن دلائل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ وقف بورڈ کی نوعیت چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے، جیسا کہ لوک سبھا کے بعض ارکان کے ذریعے دعویٰ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں۔

مسلمانوں سے انتظامی حق چھیننے کی سازش
محترم امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’وقف بورڈ کی ساخت میں جبراً تبدیلی کرکے اس کے اراکین میں غیر مسلم افراد کو شامل کرنے کا فیصلہ، دراصل مسلم کمیونٹی سے ان کے مذہبی و فلاحی اثاثوں کا انتظامی حق چھیننے کے ارادے سے کیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ سرکاری حکام کو وقف معاملوں میں مداخلت کرنے کا حق دیتا ہے، جس سے حکام کے لیے من مانے ڈھنگ سے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا راستہ آسان ہو سکتا ہے جو کہ اوقاف کے وجود کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔

مسلم اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش

اس ترمیم کی وجہ سے سرکار، وقف جائیدادوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ اس بل کے ذریعہ مسلم کمیونٹی کو ان کے جائز ملکیتی اثاثوں سے محروم کرنے کا راستہ صاف کردیا گیا ہے جس کی زد میں متعدد عبادت گاہیں، اسکول، کالج اور قبرستان آ جائیں گے۔ وقف بائے یوزر میں تبدیلی اور نئے اوقاف کے لیے سخت شرطوں کے اضافے سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ مسلم اداروں کو منظم طریقے پر کمزور کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ان سیاسی پارٹیوں کے تئیں مایوسی اور تأسف کا اظہار کیا جو سیکولرازم اور غیر جانبداریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس بل کی حمایت کرتی رہیں۔

ملک گیر احتجاج کی حمایت

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن لیڈروں، سیکولر طاقتوں اور قانونی ماہرین سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کریں۔ یہ بل آئین کی دفعہ 14، 25، 26 اور 29 کے سراسر خلاف ہے۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر اس جابرانہ قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حمایت کریں گے اور اس غیر منصفانہ و غیر آئینی قانون کو ختم کرنے کے لیے تمام قانونی، آئینی اور جمہوری طریقے اپنائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

نئی دہلی، (مفیض الرحمٰن): ’’وقف ترمیمی بل 2024 کا شدید مخالفت کے باوجود لوک سبھا سے منظور کیا جانا، مذہبی ازادی اور آئینی حقوق پر کھلا حملہ ہے‘‘ امیر جماعت اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ "مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی قابل مذمت اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

آئین کی دفعہ 26 کے خلاف وقف بل

یہ بل امتیاز اور مذہبی تفریق کی بدترین مثال ہے، اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو اوقاف کا انتظام کرنے کے مذہبی و دستوری حقِ سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ دیگر مذہبی طبقات کو اپنے مذہبی مقامات کے مکمل انتظام و انصرام کا حق حاصل ہے۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وقف املاک کے انتظام میں سرکاری مداخلت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ جو کہ آئین کی دفعہ 26 کے خلاف ہے۔ جس میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے‘‘۔

دیگر مذہبی طبقات کی طرح مسلمانوں کو بھی خصوصی حقوق
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ وقف جائیدادیں مذہبی اوقاف ہیں، ریاستی اثاثہ نہیں۔ رہا یہ دعویٰ کہ ’’مسلمانوں کو وقف ایکٹ کے تحت خصوصی حقوق حاصل ہیں‘‘ سراسر غلط ہے۔ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 میں مسلمانوں کو اوقاف کے حوالے سے ویسے ہی حقوق عطا کیے گئے تھے جیسے دیگر قوانین کے تحت دیگر مذہبی طبقات کو دیے گئے ہیں۔

ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین

پارلیمانی بحث کے دوران پیش کیے گئے گمراہ کن دلائل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ وقف بورڈ کی نوعیت چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے، جیسا کہ لوک سبھا کے بعض ارکان کے ذریعے دعویٰ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں۔

مسلمانوں سے انتظامی حق چھیننے کی سازش
محترم امیر جماعت نے مزید کہا کہ ’’وقف بورڈ کی ساخت میں جبراً تبدیلی کرکے اس کے اراکین میں غیر مسلم افراد کو شامل کرنے کا فیصلہ، دراصل مسلم کمیونٹی سے ان کے مذہبی و فلاحی اثاثوں کا انتظامی حق چھیننے کے ارادے سے کیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ سرکاری حکام کو وقف معاملوں میں مداخلت کرنے کا حق دیتا ہے، جس سے حکام کے لیے من مانے ڈھنگ سے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا راستہ آسان ہو سکتا ہے جو کہ اوقاف کے وجود کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔

مسلم اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش

اس ترمیم کی وجہ سے سرکار، وقف جائیدادوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ اس بل کے ذریعہ مسلم کمیونٹی کو ان کے جائز ملکیتی اثاثوں سے محروم کرنے کا راستہ صاف کردیا گیا ہے جس کی زد میں متعدد عبادت گاہیں، اسکول، کالج اور قبرستان آ جائیں گے۔ وقف بائے یوزر میں تبدیلی اور نئے اوقاف کے لیے سخت شرطوں کے اضافے سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ مسلم اداروں کو منظم طریقے پر کمزور کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ان سیاسی پارٹیوں کے تئیں مایوسی اور تأسف کا اظہار کیا جو سیکولرازم اور غیر جانبداریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس بل کی حمایت کرتی رہیں۔

ملک گیر احتجاج کی حمایت

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن لیڈروں، سیکولر طاقتوں اور قانونی ماہرین سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کریں۔ یہ بل آئین کی دفعہ 14، 25، 26 اور 29 کے سراسر خلاف ہے۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر اس جابرانہ قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حمایت کریں گے اور اس غیر منصفانہ و غیر آئینی قانون کو ختم کرنے کے لیے تمام قانونی، آئینی اور جمہوری طریقے اپنائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.