نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ایک تازہ عرضی پر غور کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ عدالت اس معاملے پر "سینکڑوں" درخواستوں پر غور نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ نے عرضی گزار سید اکبر کے وکیل سے کہا کہ وہ زیر التواء پانچ مقدمات میں مداخلت کی درخواست دائر کریں جس پر عبوری احکامات منظور کرنے کے لیے 5 مئی کو سماعت کی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ "آپ درخواست واپس لے لیں، ہم نے 17 اپریل کو ایک حکم جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صرف پانچ درخواستوں کو سماعت کی جائے گی۔"
واضح رہے کہ قبل ازیں تقریباً 72 درخواستیں جن میں اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی)، جمعیت علمائے ہند، دراوڑ منیتر کزگم (ڈی ایم کے)، انور باشا سابق چیئرمین کرناٹک اسٹیٹ بورڈ آف اے یو کی ایف کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل طارق احمد، کانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑی اور دیگر کی جانب سے وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی تھی۔ تاہم عدالت نے صرف 5 درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
اس معاملہ پر گذشتہ 17 اپریل کو ہوئی بحث میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کو یقین دلایا تھا کہ 5 مئی تک وقف املاک کو ڈی نوٹیفائی کرنے، صارف کے ذریعہ وقف اور سنٹرل وقف کونسل اور بورڈز میں تقرری پر عبوری روک رہے گی۔
بعد میں، مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور نے 1,332 صفحات پر مشتمل حلف نامہ داخل کیا جس میں ترمیم شدہ وقف ایکٹ کا دفاع کیا گیا اور عدالت کی طرف سے "پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ آئینی تصور کے قانون" پر کسی بھی طرح کے "اسٹے" کی مخالفت کی گئی۔
وزارت نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ قانون کی صداقت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کردے، جس میں بعض دفعات پر "شرارتی و جھوٹ پر مبنی" اعتراض کیا گیا۔