نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جسٹس یشونت ورما کے گھر سے بھاری رقم کی مبینہ برآمدگی کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رپورٹ کو عام کر دیا ہے۔ جانچ رپورٹ تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ ہفتے کی رات سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی گئی۔
25 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کی گئی سفارشات کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے تحقیقات کے لیے ایک داخلی کمیٹی تشکیل دی اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کو ہدایت دی کہ وہ جسٹس ورما کو کوئی عدالتی کام نہ سونپیں۔ اس رپورٹ میں 14 مارچ کو ہولی کی رات جسٹس ورما کے گھر کے سٹور روم سے مبینہ طور پر ملنے والی نقدی کی تصاویر اور ویڈیوز شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ نقدی گھر میں لگی آگ پر قابو پانے کے دوران برآمد کی گئی۔
جسٹس ورما کا جواب
رپورٹ میں جسٹس ورما کا جواب بھی شامل ہے۔ جسٹس ورما نے واضح کیا کہ ان کے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی بھی سٹور روم میں کوئی نقد رقم نہیں رکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ مبینہ نقدی ان کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رہائش گاہ پر نقدی ملنے کے الزامات صاف طور پر انہیں پھنسانے اور بدنام کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ جسٹس ورما نے اپنے جواب میں کہا کہ "یہ خیال یا تجویز کہ یہ نقدی ہم نے رکھی تھی یا اسٹور کی تھی، پوری طرح غیر منطقی ہے۔"
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کی طرف سے پیش کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں سرکاری مواصلات سے متعلق مواد بھی شامل تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ گھر میں آدھے جلے ہوئے نوٹوں کے چار سے پانچ ڈھیر ملے ہیں۔
جسٹس اپادھیائے کا تبصرہ
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپادھیائے نے 21 مارچ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا کہ "واقعہ کی رپورٹ، دستیاب مواد اور جسٹس یشونت ورما کے جواب کی جانچ کرنے پر مجھے جو پتہ چلا وہ یہ ہے کہ پولیس کمشنر نے 16 مارچ 2025 کی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جسٹس یشونت ورما کے گھر پر تعینات گارڈ کے مطابق، 15 مارچ 2025 کی صبح جس کمرے میں آگ لگی تھی، وہاں سے ملبہ اور دیگر جزوی طور پر جلے ہوئے سامان ہٹا دیے گئے تھے۔ میری تحقیقات میں پہلی نظر میں بنگلے کے مکینوں، نوکروں، باغبان اور سی پی ڈبلیو ڈی کے اہلکاروں (اگر کوئی ہو) کے علاوہ کسی بھی شخص کے کمرے میں داخلے یا رسائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ پہلی نظر میں میری رائے ہے کہ پورے معاملے کی باریکی سے جانچ کی ضرورت ہے۔"
تین رکنی انکوائری کمیٹی کی تشکیل
جانچ رپورٹ کو عام کرنے سے پہلے سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیل ناگو، ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے جج انو شیو رامن شامل تھے۔
ہفتہ کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ "فی الحال دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کہا گیا ہے کہ وہ جسٹس یشونت ورما کو کوئی عدالتی کام نہ سونپیں۔"
واضح رہے کہ 14 مارچ کو ہولی کی رات تقریباً 11:35 بجے جسٹس ورما کی لٹینس دہلی میں واقع رہائش گاہ میں آگ لگنے کے بعد نقدی کا بڑا ذخیرہ برآمد ہوا۔
جمعہ کو ایک بیان میں سپریم کورٹ نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس ورما کے خلاف داخلی انکوائری شروع کر دی ہے۔ جسٹس ورما کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کی تجویز بھی تھی۔ بیان میں کہا گیا کہ ’’جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ پر ہونے والے واقعے کے حوالے سے غلط معلومات اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں‘‘۔
مزید پڑھیں:
عبادت گاہوں کے سروے کا تنازع، محبوبہ مفتی نے سابق سی جے آئی پر لگایا الزام