حیدرآباد، تلنگانہ: جموں و کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے حملے کے جواب میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا اور پاکستانی شہریوں کے لیے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم (SVES) کو بھی منسوخ کردیا۔ مزید برآں، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفاع، بحری اور فضائیہ کے مشیروں کو 'شخصیات نان گریٹا' ('ناپسندیدہ شخص') قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان ان اقدامات سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور 1972 کے شملہ معاہدے کو منسوخ کرنے کی بات چیت تیز ہو گئی ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کی صبح قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جس میں شملہ معاہدے سے دستبرداری کے امکان پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ معلومات دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ میٹنگ "بھارت کے حالیہ بیانات اور اقدامات کا جواب دینے کے لیے بلائی گئی ہے۔" پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک ٹی وی چینل پر دعویٰ کیا کہ پہلگام حملے کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ بھارت کے کئی حصوں میں تشدد ’’گھریلو بغاوت‘‘ کا نتیجہ تھا۔
بھارت کے کسی بھی قسم کے اقدام کا نہ صرف ترکی بہ ترکی بالکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائیگا۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار pic.twitter.com/H0hGOFEcer
— The Thursday Times (@thursday_times) April 24, 2025
بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا کیونکہ اس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے۔ یہ اقدام کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوگا، اگر بھارت نے ایسا کیا تو پاکستان بھرپور ردعمل دے گا ور ایسی صورت میں پاکستان شملہ معاہدے سمیت دیگر دوطرفہ معاہدوں پر عملدرآمد معطل کرسکتا ہے۔… pic.twitter.com/gjV3z7saeD
— The Thursday Times (@thursday_times) April 24, 2025
دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد کمزور ہونے کی بات
پاکستانی اخبار "دی نیشن" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر دریائے سندھ کے پانی تک پاکستان کی رسائی کو خطرہ لاحق ہوا تو دیگر دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد بھی کمزور ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں، پاکستان شملہ سمجھوتہ (معاہدے) کو معطل کرنے پر غور کر سکتا ہے جس نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ ساتھ جنگ بندی کے دیگر انتظامات قائم کیے تھے۔ اس وقت پاکستانی میڈیا میں اس معاملے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
اگر بھارت کی جانب سے پاکستان کے پانی کو روکا گیا تو وہ اعلان جنگ ہوگا۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار pic.twitter.com/A3C3vzC7w3
— The Thursday Times (@thursday_times) April 24, 2025
شملہ سمجھوتہ کیا ہے؟
شملہ سمجھوتہ ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ میں 28 جون سے 2 جولائی 1972 تک کئی دور کی بات چیت کا نتیجہ تھا۔ اس معاہدے پر ہندوستان کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد 1971 کی جنگ کے بعد کشیدگی کو کم کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینا تھا۔ 1971 کی جنگ میں بھارت نے نہ صرف پاکستان کو عسکری طور پر شکست دی بلکہ مشرقی پاکستان (آج کا بنگلہ دیش) کو آزاد کروا کر پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ، بھارت نے 93,000 پاکستانی فوجیوں کو جنگی قیدیوں کے طور پر گرفتار کیا اور تقریباً 5,000 مربع میل پاکستانی علاقے پر قبضہ کر لیا۔

معاہدے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر ہوں گے۔ دونوں کے درمیان تجارت دوبارہ شروع کی جائے گی اور کوئی بھی مسئلہ پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔ معاہدے میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ نیز، ہم کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ تاہم اس کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان ہزاروں بار معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔

شملہ معاہدے کی اہم شقیں
- ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں اپنے اپنے مقامات پر واپس جائیں گی۔
- ہندوستان اور پاکستان نے 17 ستمبر 1971 کی جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کے طور پر قبول کیا۔
- معاہدے کے 20 دن کے اندر دونوں فوجیں اپنی سرحدوں پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔
- دونوں ممالک اپنے اندرونی معاملات آپس میں حل کریں گے۔
- دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر ہوں گے۔
پاکستان کئی بار شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

پاکستان کے لیے سنگین نتائج
اگر پاکستان نے شملہ سمجھوتہ توڑا تو اس کے پاکستان کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ شملہ معاہدہ جس پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد دستخط ہوئے تھے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک اہم ستون رہا ہے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں۔

کشمیر پر بھارت کا موقف مزید مضبوط ہو گا
شملہ سمجھوتہ کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ رکھنے کی بنیاد ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کو پابند کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو باہمی بات چیت اور پرامن طریقوں سے حل کریں۔ اگر پاکستان اس معاہدے کو منسوخ کرتا ہے تو بھارت کو ایک مضبوط دلیل ملے گی کہ پاکستان نے خود اس معاہدے کو کالعدم قرار دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کشمیر پر اپنی پالیسیوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے آزاد ہو جائے گا۔ بھارت یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ کسی بیرونی دباؤ کے بغیر اس پر فیصلہ کرنے کا خود مختار ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے انتہائی ناگفتہ بہ ہو گی، کیونکہ اس سے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی مداخلت کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

سفارتی ساکھ کو نقصان
شملہ معاہدے کی منسوخی سے پاکستان کی پہلے سے کمزور سفارتی ساکھ مزید کمزور ہو گی۔ عالمی برادری اسے ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام کے طور پر دیکھے گی جس سے پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بھارت اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دہشت گردی کے اسپانسر کے طور پر مزید بے نقاب کر سکتا ہے جس سے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ ایسی صورت حال میں معاشی بحران کا شکار پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھ رہی ہے
شملہ معاہدے میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے طاقت کا استعمال نہ کرنے اور لائن آف کنٹرول کا احترام کرنے کا عہد کیا تھا۔ اگر یہ معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے تو بھارت اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ سکتا ہے اور لائن آف کنٹرول کے اس پار، خاص طور پر پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (POK) میں زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔ بھارت PoK میں ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دے سکتا ہے یا وہاں کے لوگوں سے براہ راست رابطہ قائم کر سکتا ہے جس سے علاقائی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تصادم کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔