ETV Bharat / bharat

جھارکھنڈ میں خطرناک کھیل، غیر شادی شدہ لڑکیاں ماں بن رہی ہیں مگر بچے غائب ہو رہے ہیں! - MINOR MOTHERS IN KHUNTI

نابالغ ماؤں کی لرزہ خیز کہانی۔۔ سونو انصاری کی خصوصی اور مفصل رپورٹ۔۔۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 13, 2025 at 8:28 PM IST

13 Min Read

کھونٹی: ریاست جھارکھنڈ کا کھونٹی رانچی سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جہاں قبائلی آبادی کی اکثریت ہے۔ عظیم مجاہد آزادی برسا منڈا کی یہ سرزمین کبھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کی علمبردار ہوا کرتی تھی لیکن آج یہاں نابالغ لڑکیوں اور غائب ہوتے بچوں کی روحیں تڑپ رہی ہیں۔ دانستہ اور نادانستہ طور پر یہاں کی بچیاں ایک ایسے دلدل میں پھنستی جا رہی ہیں جہاں گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے تقریباً چھ ماہ تک کئی گاؤں میں اس معاملے کی چھان بین کی، کئی متاثرہ لڑکیوں سے بات کی، ان لڑکوں سے بات بھی کی جو اس فعل میں ملوث تھے۔ اس رپورٹ میں سامنے آئے چونکا دینے والے حقائق آپ کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔

نابالغ لڑکیاں بغیر شادی کے ماں بن رہی ہیں

کھونٹی کے سرکاری اسپتالوں میں درج اعداد و شمار کے مطابق متعدد نابالغ بچیاں ماں بن چکی ہیں۔ ماں بننے والی زیادہ تر لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھروں میں رہتی ہیں۔ کچھ ہی لڑکیاں اپنے نابالغ شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس معاملے میں چونکا دینے والا عنصر یہ ہے کہ ماں باپ بن چکے کچھ نابالغ جوڑوں کے پاس بچے نہیں ہیں، وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے جن بچوں کو جنم دیا وہ کہاں گئے۔

ای ٹی وی بھارت ٹیم کو ضلع کی خواتین سماجی کارکنان لکشمی باکھلا، رکمنی دیوی اور سابق ضلع پریشد صدر جونیکا گوڈیا نے تعاون دیا۔ اس پورے معاملے پر سماجی کارکنوں، سی ڈبلیو سی اور محکمہ صحت کے افسران کے بیانات چونکا دینے والے ہیں۔

کم سن بچوں کے غلط قدم اٹھانے کی وجوہات

نابالغ بچوں کے ماں باپ بننے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں نشہ خوری، بیداری کا فقدان ، تیسری اور سب سے اہم وجہ ڈھکو قبائلی روایت۔

نشے کا عام چلن

یہ قبائلی اکثریتی ضلع کھونٹی کئی دہائیوں سے نکسل ازم کی گرفت میں تھا۔ انتظامیہ اور پولیس بھلے ہی یہاں نکسل ازم پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے ہوں، لیکن جیسے ہی نکسلیوں کے نکلے، یہاں افیون کے غیر قانونی کاروبار نے ضلع کو اپنی زد میں لے لیا۔ حالات اس قدر خطرناک ہیں کہ نشے کی لت کی وجہ سے یہاں نابالغ بچے کم عمری میں ہی ماں اور باپ بن رہے ہیں، لیکن نہ تو محکمہ صحت اور نہ ہی ضلع انتظامیہ کو معلوم ہے کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے کہاں ہیں۔

بیداری کی کمی

ان تمام موضوعات پر خواتین سماجی کارکنان نے ای ٹی وی بھارت کی ٹیم کے ساتھ ضلع کے تقریباً تمام بلاکس میں رہنے والی لڑکیوں سے رابطہ کیا، جو کم عمری میں ماں بن گئی تھیں۔ مسلسل چھ ماہ تک میں گاؤں گاؤں جا کر لڑکیوں سے ملاقات کرکے یہ معلوم کیا کہ انہیں کس نے ماں بنایا۔ کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں گاؤں کے کسی نوجوان سے محبت تھی جب کہ کئی کا کہنا تھا کہ انہوں نے گائے اور بھینس چراتے ہوئے گاؤں کے لوگوں سے جسمانی تعلقات بنائے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ حاملہ ہو جائیں گی اور بچہ بھی پیدا ہوگا۔

شراب پینے یا گھر سے غائب رہنے پر کوئی پابندی نہیں

شادی کے بغیر ماں بننے والی لڑکیوں نے سماجی کارکنوں کو بتایا کہ اسکول میں پڑھنے والے لڑکے اور گاؤں کے دیگر نوجوان لڑکے اکثر نشہ خوری کرتے ہیں۔ کئی بار وہ خود بھی اپنے گھروں بنی 'ہڑیا شراب' پیتی لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ ایسے لڑکوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے بہانے ادھر ادھر نکل جایا کرتی ہیں۔ اس دوران کبھی جنگل میں اور کبھی جھرنوں (آبشار) کے پاس ان کے جسمانی تعلقات بنے لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ حاملہ ہو جائیں گی۔ کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ان کے والدین روزانہ گھر میں شراب پیتے ہیں اور نشے میں دھت رہنے کی وجہ سے ان کے والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کہاں جا رہے ہیں اور کس کے ساتھ ہیں۔ یہی نہیں، ان کے گھر والے کبھی یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ہفتے بھر گھر سے کہاں اور کیوں غائب تھیں۔

لڑکیوں کے حیرت انگیز انکشافات

متاثرہ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ جن لڑکوں کے ساتھ رہتی تھیں وہ انہیں اپنے گھر لے جاتے تھے یا کسی رشتہ دار کے یہاں رکھتے تھے، لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کون ہے۔ جسمانی تبدیلیوں اور پیٹ میں درد شروع ہونے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ اس کے بعد جب اس نے لڑکے کو یہ بات بتانے کی کوشش کی تو وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ گھر واپس آنے کے بعد اہل خانہ اسے ہسپتال لے گئے جہاں اس نے بچے کو جنم دیا۔ یہ تقریباً تمام لڑکیوں کی کہانی ہے لیکن کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں گھر میں والدین سے پیار نہیں ملا۔ ماں باپ کے ساتھ بھائی بھی نشے میں دھت رہتے ہیں۔ اس دوران اسی گاؤں یا دوسرے گاؤں کے لڑکوں ان کا تعلق بن گیا، ان سے باتیں کرنے لگیں جو محبت میں بدل گئی اور اس دوران ان کے درمیان جسمانی تعلقات استوار ہو گئے۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کب حاملہ ہوئیں۔ بہت کم لڑکیاں ہیں جو اپنے نابالغ شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں جب کہ زیادہ تر لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں میں رہ رہی ہیں۔

بچے کہاں گئے، اسپتال کیا کہہ رہا ہے؟

کھونٹی کے صدر اسپتال میں درج اعداد و شمار کے مطابق 25 سے 30 بچیاں ایسی ہیں جو ماں بن گئی ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بچے کہاں گئے۔ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ بچہ مر گیا ہے، کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ ان کا اسقاط حمل ہوا ہے، جب کہ اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق اسپتال پہنچنے والی تمام بچیوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا۔ اس کے بعد اسے مکمل صحت مند حالت میں اپنے بچے کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا۔ سماجی کارکنوں نے جب تقریباً تمام لڑکیوں سے بات کی تو یہ بات سامنے آئی کہ جو لڑکیاں غیر شادی شدہ مائیں بنی ہیں ان کے بچے شاید بیچ دیے گئے ہیں۔ کیونکہ یہ نابالغ ماں اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ بچے کی پرورش نہیں کر پاتی ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ غیر شادی شدہ ماؤں یا ان کے شوہروں کے رشتہ داروں نے نومولود بچوں کسی کو دے دیا ہوگا یا بیچ دیا ہوگا۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں ماں بننے والی بچیوں کے بچے کہاں جا رہے ہیں اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سماجی کارکن کیا کہتی ہیں؟

سماجی کارکن لکشمی باکھلا نے کھونٹی میں متاثرہ لڑکیوں سے بات کی۔ لکشمی باکھلا نے کہا کہ کئی بار نابالغوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ کھیلتے ہوئے سیکس کرتی ہیں اور جب ان کے جسم میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حاملہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ لڑکے سے دوستی کرنے اور پھر اس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کے بعد حاملہ ہوگئیں۔ سماجی کارکن نے کہا کہ ضلع میں زیادہ تر جوڑوں کو یہ نہیں معلوم کہ شادی کیا ہوتی ہے۔ یہ لوگ ڈھکو روایت کے ساتھ جیتے ہیں اور پوری آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔

ڈھکو روایت کی وجہ سے بچیاں ماں بن رہی ہیں

سماجی کارکن لکشمی باکھلا نے کہا کہ کھونٹی میں ڈُھکو کی روایت بہت زیادہ رائج ہے۔ اس روایت میں لڑکے لڑکیوں کو اپنے گھر لے جاتے ہیں لیکن گھر والے ان سے کچھ نہیں پوچھتے کہ یہ لڑکی کون ہے۔ کئی بار تو لڑکیاں خود ہی لڑکوں کو اپنے گھر لے جاتی ہیں۔ مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں آنے والی لڑکی یا لڑکا کون ہے۔ لڑکیوں کے گھر والوں کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی بیٹیاں کہاں ہیں اور کس کے ساتھ ہیں اور یہ بات بہت عام ہے۔

ڈھکو کی روایت کیا ہے؟

جھارکھنڈ کے قبائلی علاقوں میں ڈھکو کی روایت ایک سماجی اور ثقافتی رواج ہے، جو بنیادی طور پر سنتھل اور دیگر قبائلی برادریوں میں رائج ہے۔ یہ رواج شادی اور خاندان سے متعلق ہے، جس میں ایک لڑکی بغیر شادی کے دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے۔ اس دوران اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں تو پھر دونوں کی شادی ہوتی ہے۔ ڈھکو ایک سماجی رسم ہے جو جھارکھنڈ کی قبائلی برادریوں میں بہت زیادہ رائج ہے، خاص طور پر سنتھل، منڈا اور اُراوں قبیلوں میں، جس کے تحت جوڑے رسمی شادی کے بغیر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اسے لیو اِن تعلقات سے جوڑا جاتا ہے، لیکن یہ شہری لیو اِن سے مختلف ہے کیونکہ قبائلی عقائد اور مجبوریاں اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سابق ضلع کونسل صدر جونیکا گوڈیا نے کہا کہ پورے کھونٹی ضلع میں تقریباً ایسی ہی صورت حال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے بچوں کے والدین نشے کے عادی ہیں، بہت سے بچے بھی کم عمری میں ہی منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نہیں سمجھ پاتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ انہیں اس برے رواج کو ختم کرنا چاہیے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نابالغ لڑکیوں کو کیسے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ ضلع میں بڑی تعداد میں نابالغ لڑکیاں حاملہ ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ سی ڈبلیو سی بھی بہت سے معاملات سے واقف نہیں ہے۔

سی ڈبلیو سی کی چیئرپرسن نے کیا کہا؟

سی ڈبلیو سی کی چیئرپرسن تنوشری سرکار نے کہا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ پاکسو کیس کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسے معاملات میں ریگولیٹری مسائل پیدا ہوتے ہیں تو سی ڈبلیو سی اسے پاکسو اور جے جے ایکٹ کے تحت دیکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای ٹی وی بھارت نے اس معاملے کی اطلاع دی ہے اور سی ڈبلیو سی جلد ہی اس پر کارروائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر اسپتال سے رابطہ کرکے ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد تحقیقات کی جائیں گی اور اگر بچیاں کم عمری میں ماں بنی ہیں تو تحقیقات کے بعد قانونی کارروائی کی جائے گی۔

سی ڈبلیو سی کی صدر تنوشری سرکار نے کہا کہ ضلع میں ڈھکو کا رواج ہے اور اس کے خلاف بیداری مہم چلائی جائے گی۔ ضلع میں تعلیم کا فقدان ہے اور یہاں کے لوگ نشے میں دھت رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے کیسز زیادہ ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، خاندان نابالغ لڑکیوں کو بھی کسی لڑکے کے ساتھ ڈھکو بھیج دیتا ہے۔

بچوں کی کونسلنگ اور تعلیمی بیداری کی ضرورت

صدر اسپتال کے ڈی ایس آنند اوراون نے کہا کہ یہاں چھوٹی بچیاں حاملہ ہو کر آتی ہیں اور ان کا مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی کاؤنسلنگ زمینی سطح پر ہونی چاہیے جو کہ نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں تب ہی کمی آسکتی ہے جب سماجی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ چھوٹی عمر میں ماں بننا لڑکیوں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ ڈاکٹر ہونے کے ناطے انہوں نے کہا کہ ضلع میں اسکول کی سطح پر بچوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور حاملہ ہونے سے کیسے بچنا ہے۔

انہوں نے بچوں کے غائب ہونے کے سوال پر کہا کہ گھر والے یا شوہر بچے کو ہسپتال سے لے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ کیا کرتے ہیں اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو انتظامیہ اور نہ ہی محکمہ صحت کو معلوم ہے کہ ایسے معاملات میں بچے کہاں چلے جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کیسز کو کم کرنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں، محکمہ صحت، انتظامیہ سمیت سماجی سطح کے لوگوں کو توجہ دینی چاہیے۔ اس طرح کے معاملات کو کم کرنے کے لیے جھارکھنڈ کو ریاست کو منشیات سے پاک بنانے کی طرف پہل کرنی چاہیے۔ اگر بہتر تعلیم فراہم کی جائے اور نشے کو روکا جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

کھونٹی: ریاست جھارکھنڈ کا کھونٹی رانچی سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جہاں قبائلی آبادی کی اکثریت ہے۔ عظیم مجاہد آزادی برسا منڈا کی یہ سرزمین کبھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کی علمبردار ہوا کرتی تھی لیکن آج یہاں نابالغ لڑکیوں اور غائب ہوتے بچوں کی روحیں تڑپ رہی ہیں۔ دانستہ اور نادانستہ طور پر یہاں کی بچیاں ایک ایسے دلدل میں پھنستی جا رہی ہیں جہاں گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے تقریباً چھ ماہ تک کئی گاؤں میں اس معاملے کی چھان بین کی، کئی متاثرہ لڑکیوں سے بات کی، ان لڑکوں سے بات بھی کی جو اس فعل میں ملوث تھے۔ اس رپورٹ میں سامنے آئے چونکا دینے والے حقائق آپ کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔

نابالغ لڑکیاں بغیر شادی کے ماں بن رہی ہیں

کھونٹی کے سرکاری اسپتالوں میں درج اعداد و شمار کے مطابق متعدد نابالغ بچیاں ماں بن چکی ہیں۔ ماں بننے والی زیادہ تر لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھروں میں رہتی ہیں۔ کچھ ہی لڑکیاں اپنے نابالغ شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس معاملے میں چونکا دینے والا عنصر یہ ہے کہ ماں باپ بن چکے کچھ نابالغ جوڑوں کے پاس بچے نہیں ہیں، وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے جن بچوں کو جنم دیا وہ کہاں گئے۔

ای ٹی وی بھارت ٹیم کو ضلع کی خواتین سماجی کارکنان لکشمی باکھلا، رکمنی دیوی اور سابق ضلع پریشد صدر جونیکا گوڈیا نے تعاون دیا۔ اس پورے معاملے پر سماجی کارکنوں، سی ڈبلیو سی اور محکمہ صحت کے افسران کے بیانات چونکا دینے والے ہیں۔

کم سن بچوں کے غلط قدم اٹھانے کی وجوہات

نابالغ بچوں کے ماں باپ بننے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں نشہ خوری، بیداری کا فقدان ، تیسری اور سب سے اہم وجہ ڈھکو قبائلی روایت۔

نشے کا عام چلن

یہ قبائلی اکثریتی ضلع کھونٹی کئی دہائیوں سے نکسل ازم کی گرفت میں تھا۔ انتظامیہ اور پولیس بھلے ہی یہاں نکسل ازم پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے ہوں، لیکن جیسے ہی نکسلیوں کے نکلے، یہاں افیون کے غیر قانونی کاروبار نے ضلع کو اپنی زد میں لے لیا۔ حالات اس قدر خطرناک ہیں کہ نشے کی لت کی وجہ سے یہاں نابالغ بچے کم عمری میں ہی ماں اور باپ بن رہے ہیں، لیکن نہ تو محکمہ صحت اور نہ ہی ضلع انتظامیہ کو معلوم ہے کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے کہاں ہیں۔

بیداری کی کمی

ان تمام موضوعات پر خواتین سماجی کارکنان نے ای ٹی وی بھارت کی ٹیم کے ساتھ ضلع کے تقریباً تمام بلاکس میں رہنے والی لڑکیوں سے رابطہ کیا، جو کم عمری میں ماں بن گئی تھیں۔ مسلسل چھ ماہ تک میں گاؤں گاؤں جا کر لڑکیوں سے ملاقات کرکے یہ معلوم کیا کہ انہیں کس نے ماں بنایا۔ کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں گاؤں کے کسی نوجوان سے محبت تھی جب کہ کئی کا کہنا تھا کہ انہوں نے گائے اور بھینس چراتے ہوئے گاؤں کے لوگوں سے جسمانی تعلقات بنائے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ حاملہ ہو جائیں گی اور بچہ بھی پیدا ہوگا۔

شراب پینے یا گھر سے غائب رہنے پر کوئی پابندی نہیں

شادی کے بغیر ماں بننے والی لڑکیوں نے سماجی کارکنوں کو بتایا کہ اسکول میں پڑھنے والے لڑکے اور گاؤں کے دیگر نوجوان لڑکے اکثر نشہ خوری کرتے ہیں۔ کئی بار وہ خود بھی اپنے گھروں بنی 'ہڑیا شراب' پیتی لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ ایسے لڑکوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے بہانے ادھر ادھر نکل جایا کرتی ہیں۔ اس دوران کبھی جنگل میں اور کبھی جھرنوں (آبشار) کے پاس ان کے جسمانی تعلقات بنے لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ حاملہ ہو جائیں گی۔ کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ان کے والدین روزانہ گھر میں شراب پیتے ہیں اور نشے میں دھت رہنے کی وجہ سے ان کے والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کہاں جا رہے ہیں اور کس کے ساتھ ہیں۔ یہی نہیں، ان کے گھر والے کبھی یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ہفتے بھر گھر سے کہاں اور کیوں غائب تھیں۔

لڑکیوں کے حیرت انگیز انکشافات

متاثرہ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ جن لڑکوں کے ساتھ رہتی تھیں وہ انہیں اپنے گھر لے جاتے تھے یا کسی رشتہ دار کے یہاں رکھتے تھے، لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کون ہے۔ جسمانی تبدیلیوں اور پیٹ میں درد شروع ہونے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ اس کے بعد جب اس نے لڑکے کو یہ بات بتانے کی کوشش کی تو وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ گھر واپس آنے کے بعد اہل خانہ اسے ہسپتال لے گئے جہاں اس نے بچے کو جنم دیا۔ یہ تقریباً تمام لڑکیوں کی کہانی ہے لیکن کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں گھر میں والدین سے پیار نہیں ملا۔ ماں باپ کے ساتھ بھائی بھی نشے میں دھت رہتے ہیں۔ اس دوران اسی گاؤں یا دوسرے گاؤں کے لڑکوں ان کا تعلق بن گیا، ان سے باتیں کرنے لگیں جو محبت میں بدل گئی اور اس دوران ان کے درمیان جسمانی تعلقات استوار ہو گئے۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کب حاملہ ہوئیں۔ بہت کم لڑکیاں ہیں جو اپنے نابالغ شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں جب کہ زیادہ تر لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں میں رہ رہی ہیں۔

بچے کہاں گئے، اسپتال کیا کہہ رہا ہے؟

کھونٹی کے صدر اسپتال میں درج اعداد و شمار کے مطابق 25 سے 30 بچیاں ایسی ہیں جو ماں بن گئی ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بچے کہاں گئے۔ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ بچہ مر گیا ہے، کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ ان کا اسقاط حمل ہوا ہے، جب کہ اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق اسپتال پہنچنے والی تمام بچیوں نے صحت مند بچوں کو جنم دیا۔ اس کے بعد اسے مکمل صحت مند حالت میں اپنے بچے کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا۔ سماجی کارکنوں نے جب تقریباً تمام لڑکیوں سے بات کی تو یہ بات سامنے آئی کہ جو لڑکیاں غیر شادی شدہ مائیں بنی ہیں ان کے بچے شاید بیچ دیے گئے ہیں۔ کیونکہ یہ نابالغ ماں اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ بچے کی پرورش نہیں کر پاتی ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ غیر شادی شدہ ماؤں یا ان کے شوہروں کے رشتہ داروں نے نومولود بچوں کسی کو دے دیا ہوگا یا بیچ دیا ہوگا۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں ماں بننے والی بچیوں کے بچے کہاں جا رہے ہیں اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سماجی کارکن کیا کہتی ہیں؟

سماجی کارکن لکشمی باکھلا نے کھونٹی میں متاثرہ لڑکیوں سے بات کی۔ لکشمی باکھلا نے کہا کہ کئی بار نابالغوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ کھیلتے ہوئے سیکس کرتی ہیں اور جب ان کے جسم میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حاملہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ لڑکے سے دوستی کرنے اور پھر اس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کے بعد حاملہ ہوگئیں۔ سماجی کارکن نے کہا کہ ضلع میں زیادہ تر جوڑوں کو یہ نہیں معلوم کہ شادی کیا ہوتی ہے۔ یہ لوگ ڈھکو روایت کے ساتھ جیتے ہیں اور پوری آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔

ڈھکو روایت کی وجہ سے بچیاں ماں بن رہی ہیں

سماجی کارکن لکشمی باکھلا نے کہا کہ کھونٹی میں ڈُھکو کی روایت بہت زیادہ رائج ہے۔ اس روایت میں لڑکے لڑکیوں کو اپنے گھر لے جاتے ہیں لیکن گھر والے ان سے کچھ نہیں پوچھتے کہ یہ لڑکی کون ہے۔ کئی بار تو لڑکیاں خود ہی لڑکوں کو اپنے گھر لے جاتی ہیں۔ مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں آنے والی لڑکی یا لڑکا کون ہے۔ لڑکیوں کے گھر والوں کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی بیٹیاں کہاں ہیں اور کس کے ساتھ ہیں اور یہ بات بہت عام ہے۔

ڈھکو کی روایت کیا ہے؟

جھارکھنڈ کے قبائلی علاقوں میں ڈھکو کی روایت ایک سماجی اور ثقافتی رواج ہے، جو بنیادی طور پر سنتھل اور دیگر قبائلی برادریوں میں رائج ہے۔ یہ رواج شادی اور خاندان سے متعلق ہے، جس میں ایک لڑکی بغیر شادی کے دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے۔ اس دوران اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں تو پھر دونوں کی شادی ہوتی ہے۔ ڈھکو ایک سماجی رسم ہے جو جھارکھنڈ کی قبائلی برادریوں میں بہت زیادہ رائج ہے، خاص طور پر سنتھل، منڈا اور اُراوں قبیلوں میں، جس کے تحت جوڑے رسمی شادی کے بغیر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اسے لیو اِن تعلقات سے جوڑا جاتا ہے، لیکن یہ شہری لیو اِن سے مختلف ہے کیونکہ قبائلی عقائد اور مجبوریاں اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سابق ضلع کونسل صدر جونیکا گوڈیا نے کہا کہ پورے کھونٹی ضلع میں تقریباً ایسی ہی صورت حال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے بچوں کے والدین نشے کے عادی ہیں، بہت سے بچے بھی کم عمری میں ہی منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نہیں سمجھ پاتے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ انہیں اس برے رواج کو ختم کرنا چاہیے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نابالغ لڑکیوں کو کیسے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ ضلع میں بڑی تعداد میں نابالغ لڑکیاں حاملہ ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ سی ڈبلیو سی بھی بہت سے معاملات سے واقف نہیں ہے۔

سی ڈبلیو سی کی چیئرپرسن نے کیا کہا؟

سی ڈبلیو سی کی چیئرپرسن تنوشری سرکار نے کہا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ پاکسو کیس کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسے معاملات میں ریگولیٹری مسائل پیدا ہوتے ہیں تو سی ڈبلیو سی اسے پاکسو اور جے جے ایکٹ کے تحت دیکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای ٹی وی بھارت نے اس معاملے کی اطلاع دی ہے اور سی ڈبلیو سی جلد ہی اس پر کارروائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر اسپتال سے رابطہ کرکے ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد تحقیقات کی جائیں گی اور اگر بچیاں کم عمری میں ماں بنی ہیں تو تحقیقات کے بعد قانونی کارروائی کی جائے گی۔

سی ڈبلیو سی کی صدر تنوشری سرکار نے کہا کہ ضلع میں ڈھکو کا رواج ہے اور اس کے خلاف بیداری مہم چلائی جائے گی۔ ضلع میں تعلیم کا فقدان ہے اور یہاں کے لوگ نشے میں دھت رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے کیسز زیادہ ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، خاندان نابالغ لڑکیوں کو بھی کسی لڑکے کے ساتھ ڈھکو بھیج دیتا ہے۔

بچوں کی کونسلنگ اور تعلیمی بیداری کی ضرورت

صدر اسپتال کے ڈی ایس آنند اوراون نے کہا کہ یہاں چھوٹی بچیاں حاملہ ہو کر آتی ہیں اور ان کا مناسب علاج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی کاؤنسلنگ زمینی سطح پر ہونی چاہیے جو کہ نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں تب ہی کمی آسکتی ہے جب سماجی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ چھوٹی عمر میں ماں بننا لڑکیوں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ ڈاکٹر ہونے کے ناطے انہوں نے کہا کہ ضلع میں اسکول کی سطح پر بچوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور حاملہ ہونے سے کیسے بچنا ہے۔

انہوں نے بچوں کے غائب ہونے کے سوال پر کہا کہ گھر والے یا شوہر بچے کو ہسپتال سے لے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ کیا کرتے ہیں اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو انتظامیہ اور نہ ہی محکمہ صحت کو معلوم ہے کہ ایسے معاملات میں بچے کہاں چلے جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کیسز کو کم کرنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں، محکمہ صحت، انتظامیہ سمیت سماجی سطح کے لوگوں کو توجہ دینی چاہیے۔ اس طرح کے معاملات کو کم کرنے کے لیے جھارکھنڈ کو ریاست کو منشیات سے پاک بنانے کی طرف پہل کرنی چاہیے۔ اگر بہتر تعلیم فراہم کی جائے اور نشے کو روکا جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.