لکھنؤ، سنبھل: وقف بل کے خلاف بھارتی مسلمانوں نے متحدہ طور پر ملک بھر میں احتجاج منظم کیا اور جمعۃ الوداع پرامن طور پر ادا کی۔ ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں الوداع کی نماز پُرامن طریقے سے ادا کی گئی، اس موقع پر وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج درج کیا گیا۔ لکھنؤ کی مشہور ٹیلے والی مسجد میں الوداع کی نماز مکمل امن اور نظم و ضبط کے ساتھ ادا کی گئی۔ بڑی تعداد میں نمازیوں نے کالی پٹی باندھ کر وقت ترمیمی ایکٹ 2024 کے خلاف علامتی احتجاج درج کرایا۔
سماج وادی پارٹی کا احتجاج
سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی روی داس ملہوترا نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی اور کہا، "ہم سیکولر لوگ اس ایکٹ کے خلاف ہیں۔ ہم نے بھی کالی پٹی باندھ کر اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ سماج وادی پارٹی اس بل کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔"
شاہی امام کا بیان اور انتظامیہ کا کردار
ٹیلے والی مسجد کے شاہی امام مولانا فضل المنان رحمانی نے انتظامیہ کی سیکورٹی انتظامات کی تعریف کرتے ہوئے نمازیوں سے پُرامن احتجاج کرنے کی اپیل کی۔ "ہم سب سے درخواست کرتے ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں، نعرے بازی نہ کریں اور پُرامن طریقے سے اپنے گھروں کو واپس جائیں۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے الوداع کی نماز میں کالی پٹی باندھ کر احتجاج کی اپیل کی تھی، جسے مسلم برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر حمایت ملی۔
عید کی نماز میں بھی احتجاج جاری رہے گا
شاہی امام نے واضح کیا کہ "عید کی نماز بھی کالی پٹی باندھ کر ادا کی جائے گی، کیونکہ یہ قانون وقف جائیدادوں کو ختم کرنے کی سازش ہے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا، تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
"اگر ہمیں پیدل بلایا جائے گا تو ہم پیدل جائیں گے، اگر کفن باندھ کر بلایا جائے گا تو کفن باندھ کر جائیں گے، لیکن اگر ہماری قربانیوں کو نظر انداز کر کے کوئی معاہدہ کیا گیا، تو ہم اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔"
احتجاج کا پیغام
اس پُرامن احتجاج کا بنیادی مقصد حکومت تک یہ پیغام پہنچانا تھا کہ مسلمان اپنی وقف جائیدادوں کے حق سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہ احتجاج آنے والے دنوں میں کیا شکل اختیار کرے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔
ضلع مظفر نگر میں بھی احتجاج
ضلع مظفر نگر میں بھی جمعۃ الوداع کی نماز سخت سکیورٹی کے درمیان ادا کی گئی۔ جمعۃ الوداع کی نماز کو لے کر مظفر نگر ضلع انتظامیہ اور پولیس انتظامیہ نے معقول انتظامات کیے ہوئے تھے۔ سبھی مسجدوں کے باہر اور مرکزی چوراہوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی تاکہ ناخوشگوار واقعات کو روکا جا سکے۔ الوداع جمعہ کی نماز کو دیکھتے ہوئے مظفر نگر پولیس نے ایک جانب ضلع کو آٹھ زون اور 21 سیکٹر میں بانٹ کر سکیورٹی کے معقول انتظامات کیے ہوئے تھے۔ تو وہیں مظفر نگر کی عوام نے پرامن طریقے سے الوداع جمعہ کی نماز ادا کی اور ملک کی ترقی امن و امان اور آپسی بھائی چارے کے لیے دوا کی۔
جمعۃ الوداع کی نماز میں وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج دیکھنے کو ملا۔ نماز ادا کرنے آئے سبھی نمازیوں نے اپنے اپنے ہاتھوں پر کالی پٹی باندھ کر نماز ادا کی۔ نمازیوں کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے خلاف اپیل کی تھی۔ نماز جمعہ کے وقت جب نماز کے لیے آپ نکلیں تو ہاتھوں پر کالی پٹی باندھ کر نماز ادا کریں اور اپنا خاموشی کے ساتھ احتجاج درج کرائیں۔ یہی دیکھنے کو بھی ملا۔
اس سے متعلق مزید معلومات دیتے ہوئے امام تنظیم کے ریاستی صدر مفتی ذوالفقار نے بتایا کہ دیکھیے آج رمضان المبارک کا آخری جمعہ تھا۔ جس کو الوداع جمعہ بھی کہا جاتا ہے۔ تمام مسلمانوں نے نئے نئے کپڑے پہن کر جوش کے ساتھ مسجدوں میں نماز ادا کی اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے بھی بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اپیل تھی کہ وقف بل کے خلاف جب جمعہ کی نماز کے لیے مسجدوں میں جائیں تو خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے ہاتھوں پر کالی پٹی باندھ کر وقف بل کے خلاف اپنا احتجاج درج کرائیں۔
لہٰذا اس اپیل پر عمل کرتے ہوئے تمام مسلمانوں نے اپنے اپنے بازوؤں پر کالی پٹی باندھ کر الوداع جمعہ کی نماز ادا کی۔ اس احتجاج کا مقصد یہ تھا کہ وقف ترمیمی بل جو حکومت کہہ رہی ہے کہ بل مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہے لیکن مسلمان اس میں اپنا کوئی فائدہ نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ اس قانون کے بننے سے مسلمان کا نقصان ہی ہوگا یہ بل پاس نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے سڑکوں پر نماز پڑھنے کو لے کر کہا کہ مسلمان کبھی بھی سڑک پر نماز نہیں ادا کرتا۔ راستہ روکنے یا راستے پر نماز پڑھنے کو لے کر اسلام سخت خلاف ہے۔ اسلام تو راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے یا کسی کو تکلیف دینے والی چیزوں کو ہٹانے کا حکم دیتا ہے۔ مسلمان کو نماز پڑھنے کے لیے تو بہت مسجدیں ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ آبادی زیادہ بڑھنے کی وجہ سے کچھ لوگ مسجدوں اور عبادت گاہوں سے باہر آ جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک مجبوری ہے۔ جان بوجھ کر کبھی بھی مسلمان سڑک پر نماز نہیں ادا کرتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسے تو صرف ایک مسئلہ بنایا جا رہا ہے کہ مسلمان سڑکوں پر نماز ادا کرتا ہے۔ میری حکومت سے یہی درخواست ہے کہ حکومت سڑکوں پر کسی بھی مذہبی پروگرام کے خلاف ہے تو حکومت کو اس پر قانون بنا دینا چاہیے کہ سڑکوں پر کوئی بھی مذہبی پروگرام نہیں ہوگا۔ ہم اس قانون کی حمایت کریں گے۔ لیکن یہ نہیں کہ آپ کسی ایک فرقہ پر ہر طرح کی پابندی لگا دیں اور کسی دوسرے فرقہ کو کچھ بھی کرنے دیں۔