لکھنؤ، اترپردیش: لوک سبھا میں پیش کیے گئے وقف ترمیمی ایکٹ 2024 کو لے کر مسلم کمیونٹی میں گہری تشویش اور عدم اطمینان ہے۔ بل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ بل کی منظوری کے بعد اسے تفصیل سے پڑھا جائے گا اور پھر کمیٹی کے اجلاس کے بعد اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
مولانا عباس نے الزام لگایا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے ان کی رائے کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بل سے وقف املاک کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں تمام انتظامی اختیارات ضلع انتظامیہ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) اور کمشنر کو دیے گئے ہیں۔
ضلع انتظامیہ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو وقف کے معاملات کا گہرا علم نہیں
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ایک ضلع مجسٹریٹ کو وقف کے معاملات کا گہرا علم نہیں ہے تو وہ اس کے مقاصد کو کیسے سمجھے گا؟ انہوں نے خاص طور پر اتر پردیش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں وقف املاک کی بڑی تعداد ہے اور اس بل کی منظوری کے بعد ریاست بالخصوص لکھنؤ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
مسلم تنظیموں کی رائے نظر انداز
مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ جب پوری مسلم کمیونٹی عید منا رہی تھی، حکومت نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ انہوں نے اسے تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جے پی سی کی سفارشات اور مسلم تنظیموں کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔
مولانا فرنگی محلی نے کہا کہ وقف املاک صرف مسلم طبقہ کی ہے جس میں مذہبی مقامات، مساجد اور درگاہیں شامل ہیں۔ جن کے تقدس کو کسی طور پر کم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام ارکان پارلیمنٹ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں گے اور بل کو قانونی شکل نہیں دی جائے گی۔
مسلم کمیونٹی کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14، 21 اور 25 کے خلاف ہے۔ اگر یہ بل منظور ہوا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک کسی قسم کے احتجاج کے حوالے سے لائحۂ عمل طے نہیں کیا گیا تاہم آئندہ گروپ میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
مسلم تنظیموں نے کہا کہ وقف املاک کو ریلوے اور وزارت دفاع کی جائیدادوں سے زیادہ ظاہر کیا جا رہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد، خانقاہ اور درگاہیں فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ اور نہ ہی ان کے لیے کوئی قیمت مقرر کی جا سکتی ہے۔
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ بل صرف مسلم کمیونٹی کو کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اسے کسی بھی حالت میں قانونی شکل نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ مسلم کمیونٹی کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس بل کو واپس لے۔
باضابطہ تحریک کا اعلان
فی الحال مسلم تنظیموں نے اس معاملے پر کسی باضابطہ تحریک کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ کا سہارا لینے کا اشارہ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں مسلم قائدین اور تنظیموں کی میٹنگ کے بعد اس پر مزید حکمت عملی طے کی جائے گی۔
سنت نے خون سے خط لکھا، وقف بورڈ کی زمین پر اسپتال اور کالج بنایا جائے
سری کرشنا جنم بھومی سنگھرش نیاس کے صدر دنیش شرما نے بدھ کو اپنے خون سے ایک خط لکھ کر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وقف بورڈ کی جائیدادوں پر عوام کے لیے اسپتال، اسکول، کالج اور پولیس ہیڈ کوارٹر بنائے جائیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ہندوؤں کی زمینوں پر مسلم کمیونٹی کے لوگ قابض ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہی اس زمین کو آزاد کرانے کے لیے مناسب قدم اٹھا سکتے ہیں۔
جانیے وقف بورڈ بل پر دیوبندی علمائے کرام نے کیا کہا
وقف ترمیمی بل پر عالم اسلام میں غصہ ہے۔ دیوبندی علماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ترمیم شدہ بل پر ناراض ہیں۔ تاہم کچھ مسلمان بھی اس بل کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ دیوبندی عالم قاری اسحاق گورا کا کہنا ہے کہ یہ بل لا کر مسلمانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ حکومت مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرے گی۔ اس لیے یہ بل مسلمانوں کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
وقف املاک پر قبضہ کرنے اور چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو روکا جائے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مذہبی رہنما ڈاکٹر ریحان اختر نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کو لے کر پہلے دن سے ہی مسلمانوں میں یہ خوف ہے کہ مسلم کمیونٹی کی جائیدادوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی یا ان سے چھینا جائے گا۔ ریحان نے حکومت سے امید ظاہر کی ہے کہ وقف ترمیمی بل کو لے کر مسلمانوں میں موجود خوف دور ہو جائے گا اور ایسا قانون بنایا جانا چاہیے جو وقف املاک پر قبضہ کرنے والوں اور وقف کی جائیدادوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو روکے۔
وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج
وقف بل کے خلاف بھارتی مسلمانوں نے متحدہ طور پر ملک بھر میں احتجاج منظم کیا۔ کرناٹک کے وزراء اور ان کے حامیوں نے مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پیر کو بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر عیدالفطر کی نماز ادا کی۔ قبل ازیں مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک بھر کے مسلمانوں سے جمعۃ الوداع اور عیدالفطر 2025 کی نماز کے موقع پر بازوؤں پر سیاہ پٹی باندھ کر وقف ترمیمی بل کے خلاف خاموش احتجاج کرنے کی اپیل کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ بہار سے حکومت مخالف احتجاج کا آغاز کیا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی احتجاج کی حمایت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ راجدھانی پٹنہ کے گردنی باغ میں بل کے خلاف رہنماؤں اور سماجی کارکن اس بل کی مخالفت میں جمع ہوئے اور وقف بل کے خلاف آواز بلند کی۔